اے وسیم خٹک
قدرتی آفات جیسے بارشیں، سیلاب یا زلزلے جب بھی آتے ہیں تو دنیا کا کوئی بھی ملک سو فیصد ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے نتائج کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کی تازہ مثال اگر کسی کو سمجھنی ہو تو امریکہ کے نیویارک سٹی میں حالیہ سیلابی صورتحال کی ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں جدید ترین نظام ہونے کے باوجود ہر جگہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کے ساتھ سوشل میڈیا اتنا زہریلا ہو چکا ہے کہ تعمیری تنقید کی گنجائش کم اور لعن طعن زیادہ ہو گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اگر سیلاب آ جائے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے حامی اسے اپنی سیاست چمکانے کا بہترین موقع سمجھتے ہیں۔ کراچی یا اندرونِ سندھ میں بارشوں کے بعد پانی کھڑا ہو جائے تو پی ٹی آئی اور ن لیگ اسے سندھی حکومت کی ناکامی ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ پنجاب میں اگر پانی آ جائے تو تحریکِ انصاف اور دیگر مخالفین ن لیگ کو خوب نشانے پر رکھتے ہیں۔ یوں ہر سیاسی جماعت قدرتی آفات کو اپنی سیاست کے ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق آنے والے سالوں میں شدید بارشیں، غیر معمولی گرمی، خشک سالی، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب معمول بن سکتے ہیں۔ ان موسمیاتی تغیرات کے اثرات نہ صرف معیشت بلکہ امن و امان، غربت اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل کو بھی کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔
بطور قوم ہمیں سب سے پہلے دو بنیادی اقدامات کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ پہلا یہ کہ پالیسی بنانے اور فیصلہ سازی کرنے والے اداروں پر مسلسل دباؤ رکھا جائے کہ وہ موسم، ماحول اور قدرتی آفات کے حوالے سے جدید اور جامع حکمت عملی اختیار کریں تاکہ نقصانات کم سے کم ہوں۔ دوسرا یہ کہ ہم اپنی طرزِ زندگی میں تبدیلیاں لائیں، حفاظتی تدابیر اپنائیں، نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور مقامی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کریں۔
یہاں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں اگر سیلاب آتا ہے تو وہاں کی عوام اور اپوزیشن حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی بجائے عملی حل پر زور دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی صوبہ قدرتی آفت کا شکار ہو تو باقی صوبے اور ان کی سیاسی جماعتیں فوراً سیاست چمکانے نکل پڑتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں سیلاب آئے تو پنجاب سے الزامات کی بوچھاڑ، سندھ میں پانی بھر جائے تو باقی ملک سے تنقید، اور پنجاب میں پانی چڑھ جائے تو خیبر پختونخوا اور دوسری جماعتوں کا نیا تھیٹر شروع ہو جاتا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں بھی شدید بارشیں اور سیلاب آتے ہیں مگر وہاں الزامات کی سیاست نہیں بلکہ سسٹم کو بہتر بنانے پر بات ہوتی ہے۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم سمجھیں کہ قدرتی آفات کو سیاست کا ایندھن بنانے کی بجائے اجتماعی شعور اور عملی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سیاسی نعرے یا سوشل میڈیا پر لعن طعن پانی نہیں روک سکتے۔ پانی روکنے کیلئے عملی منصوبہ بندی، مقامی سطح پر نکاسیِ آب کے موثر نظام اور لوگوں کی بروقت مدد کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ بصورتِ دیگر ہر سال یہی منظرنامہ دہرایا جائے گا، کوئی ایک صوبہ ڈوبے گا، باقی اسے طعنے دیں گے ۔اور نقصان صرف عوام کا ہو گا۔