GHAG

عمران خان کو تاریخی دھچکا اور ان کی غلط فہمیاں

عقیل یوسفزئی

راولپنڈی کی احتساب عدالت نے جمعہ کے روز 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بالترتیب 14 اور 7 سیل قید بامشقت کی سزائیں سنادی ہیں جس پر پی ٹی آئی کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور حسبِ معمول یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اس اہم مگر سخت ترین سزاؤں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ دوسری جانب حکومت اور معتبر قانونی ماہرین کی آراء ہیں کہ یہ محض “دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے” والی بات ہے اور احتساب عدالت نے اپنی پوری 100 سماعتوں کے دوران جس نوعیت کے ثبوت، شواہد اور گواہیوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا ہے اس کے بعد اس کو “فائنل راؤنڈ” ہی سمجھا جائے اور کسی ڈیل کے بغیر اب عمران خان صاحب کی رہائی کا بظاہر کوئی امکان نہیں آتا۔

اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی بجائے اگر خلاصے کے طور پر یہ کہا جائے کہ “قصہ ختم شد” تو غلط نہیں ہوگا۔ جہاں تک کسی مجوزہ یا ممکنہ ڈیل کا تعلق ہے اس مد میں وہ عسکری قیادت کے ساتھ عملاً کبھی زیربحث ہی نہیں آئی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب موصوف کو ڈیڑھ سال قبل گرفتار کرلیا گیا تو اس وقت کے حالات کے تناظر میں ان کو پیغام بھیجا گیا تھا کہ اگر وہ اپنے جارحانہ انداز کے طرزِ سیاست اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے باز آجائیں تو بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی طرح کسی پازیٹیو آپشن پر غور کیا جاسکتا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف یہ کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے جارحانہ پن میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور اس ناکام مہم جوئی میں ناقابل برداشت ریاست مخالف پروپیگنڈا کے علاوہ بہت بھاری سرمایہ کاری کرتے ہوئے امریکی اداروں اور حکمرانوں تک کو ملوث کرتے ہوئے یہ بیانیہ اپنایا گیا کہ ” ٹرمپ آئے گا خان کو نکالے گا”۔ دباؤ ڈالنے کیلئے امریکہ اور برطانیہ تو ایک طرف بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک اور ان کے میڈیا کو پاکستان خصوصاً اس کی عسکری قیادت کے خلاف استعمال کیا گیا۔

حال ہی میں جب گزشتہ ہفتے  صوبے کی سیکورٹی صورتحال پر مشاورت کرنے آرمی چیف پشاور آئے اور اس میٹنگ میں دیگر کے علاوہ بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی مدعو کیا گیا تو پی ٹی آئی نے حسب معمول پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور بارگیننگ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس قسم کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ شاید اس ملاقات میں جاری مذاکراتی عمل سے متعلق اعلیٰ عسکری قیادت سے کوئی مشاورت ہوئی ہے حالانکہ اس قسم کی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی اور ان کو صاف الفاظ میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات وغیرہ وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ اور ڈومین ہیں۔ بعض پرو پی ٹی آئی تجزیہ کاروں اور اسپانسرڈ یو ٹیوبرز کو غلط اطلاعات فیڈ کی گئیں جس نے رہی سہی ہمدردی بھی ختم کرکے رکھ دی۔

ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کو قانونی طریقے سے ڈیل کرنے کی بجائے سیاسی طور پر ڈیل کرنے کی کوشش کی جس کے باعث بانی پی ٹی آئی کے پورے کیریئر کو داؤ پر لگانے کا راستہ ہموار کیا گیا اور ان کو اپنی اہلیہ سمیت ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا گیا۔ لگ تو یہ رہا ہے اب جاری مذاکراتی عمل کا قصہ بھی تمام ہوجایے گا اور پی ٹی آئی نہ صرف مزید توڑ پھوڑ سے دوچار ہوجائے گی بلکہ عمران خان اور دیگر کے خلاف 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات سے متعلق انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جو مقدمات دائر کئے گئے ان سے بھی متعدد اس نوعیت کے فیصلے آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس کو محض ایک ناخوشگوار واقعہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے ایک مقبول لیڈر کو اتنی لمبی اور بڑی سزائیں ہوئی ہیں تاہم اس تلخ حقیقت کا خود بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو بھی ادراک ہونا چاہیے کہ جو کچھ ہوا اس میں بنیادی کردار ان کا اپنا رہا ہے اور اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ شاید پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈرشپ بھی نہیں چاہتی تھی کہ ان کے لیڈر کو کوئی رعایت مل جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو ان کی بعض خوش فہمیاں لے ڈوبی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ اس تسلسل میں یہ بھی بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اب خیبرپختونخوا حکومت کی مشکلات میں بھی مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ صوبائی حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ دوسرے صوبوں کی پی ٹی آئی قیادت تو عملی سیاست یا مزاحمت سے ہینڈز آپ کرچکی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts