GHAG

نظریاتی تعلیم بمقابلہ ترقیاتی عمل

روخان یوسفزئی

ہمارے ہاں دیگر المیوں اور مغالطوں یا مبالغوں میں سے ایک بڑا المیہ، مغالطہ اور مبالغہ یہ بھی عام ہے کہ ہمارا دانا دانشور، تجزیہ کار اور میڈیا ہر چیز یا مسئلے کو اپنے اپنے نمبر اور اپنی اپنی رنگ کی عینکوں سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ ظاہر ہے جس نے سرخ رنگ کی عینکیں پہنی ہوں تو اسے ہر چیز سرخ ہی نظر آئے گی اسی طرح جس نے کوئی دوسرے رنگ کی عنیکیں پہنی ہوں تو اسے اپنی ہی اسے ہر منظر اور چیز اسی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آئے گی۔لہذا جب تک ہم چیزوں کو سفید اور شفاف رنگ کی عینکوں سے نہیں دیکھیں گے تب تک ہمیں اس چیز یا مسئلے کا اپنا اصلی رنگ اور منظر نظر نہیں آسکتا۔

اسی روش اور رنگ نظری کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ملک اور معاشرے میں بڑھتی اور پھیلتی ہوئی انتہاپسندی، بنیاد پرستی اور شدت پسندی کو ہمارے اکثر دانشور، تجزیہ کار اور لکھاری ملک میں موجود بے روزگاری، غربت، افلاس اور جہالت کا واحد نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اس امر پر زور دیتے ہیں کہ اگر ملک میں ترقیاتی عمل کی رفتار تیز کردی جائے تو ان امراض یا بالفاظ اس ناسور پر قابو پایا جاسکتا ہےکیونکہ ان کی ”مخصوص“ اور”یک رخا“ نظر میں پاکستان میں انتہاپسندی اور بنیادی پرستی کی وجوہات میں معاشی ناہمواری، وسائل کی غیرمساوی تقسیم، بنیادی سہولیات سے محرومی، حکومتی پالیساں، طبقاتی تفاوت، ہتھیاروں کا پھیلاؤ، میڈیا کا منفی کردار،صوبائی اختلافات،کمزور معاشرتی ڈھانچہ،مخصوص طرز فکر، مذہبی قیادت کا مبہم کردار، لاقانونیت، عدالتی نظام میں کمزوریاں اور سیاسی استحصال ہی بنیادی وجوہات ہیں۔

ہم ان وجوہات کو یک جنبش قلم مسترد نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان حقیقتوں سے آنکھیں چرا سکتے ہیں۔کہ بیان کردہ وجوہات ہمارے ملک اور معاشرے کے وہ پہلو اور حقائق ہیں جو انتہاپسندی، بنیاد پرستی اور شدت پسندی کی کسی نہ کسی حد تک وجہ بنتے ہیں۔مگر اسے اٹل،جامع اور کُلی حقیقت نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اس پر اکتفا کرسکتے ہیں کیونکہ اگر پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر دیکھا اور پرکھا جائے تو عسکریت پسندی کے بڑے رہنما اسامہ بن لادن،ایمن الظواہری، ابومعصب الزرقاوی تو ہر لحاظ سے ”پورے لوگ“تھے، یہ لوگ تو جدید علیٰ تعلیم یافتہ،کھاتے پیتے گھرانے، بڑے دولت مند اورصاحب ثروت خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس پیمانے پر ان رہنماؤں کی مذہبی انتہاپسندی اور عسکریت پسند گروہوں میں شمولیت اور شرپسندوں کو ہر حوالے سے سپورٹ کرنا ان تمام وجوہات اور افکار کے لیے ایک لمحہ فکریہ اور سوالیہ نشان ہیں جو حضرات صرف جدید تعلیم اور تیز ترقیاتی عمل کو ہی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے تدارک اور خاتمے کا واحد حل سمجھتے ہیں۔یہاں اس امر سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگرچہ یہ عسکری رہنما بڑے اثر و رسوخ کے مالک اور بہتر تعلیمی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔مگر ان کا بیانیہ اور دکھایا ہوا راستہ ان نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب ضرور کھینچتا ہے جو معاشی،معاشرتی اور بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں لہذا اس امر کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے ہی محروم افراد خاص طور پرنوجوان جو تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار،در بہ در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی بھی ایسی تحریک یا گروہ میں باآسانی شامل ہوسکتے ہیں جہاں سے ان کی ضروریات کی تکمیل ہوسکے۔

ہمارے ہاں پالیسی ساز ادارے،دانشور اور تجزیہ کار ان مسائل کا یہی حل اور علاج تجویز کرتے ہیں کہ تعلیمی سہولیات کو بہتر کیا جائے،تعلیم کا جال بچھایا جائے، تعلیم کو سستا اور عام کیا جائے مگر اس سلسلے میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو بالکل نظرانداز کیا جاتا ہے جبکہ نصاب اور نظام تعلیم کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ترتیب اور استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے،کیونکہ معاشرے میں ہونے والے شدت پسندی کے واقعات ہی انتہاپسندی کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب اور تاریخ اس حقیقت کی غماز ہیں کہ انتہاپسندی اور بنیادپرستی کی تدارک اور خاتمے کے لیے ہم جس طریقہ کار کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی حد تک انتہاپسندی کا باعث بن رہا ہے، تعلیمی ادارے بذات خود انتہاپسندی کی سوچ،نظریات اور فکر کو فروغ دینے کی وجہ بن رہے ہیں، لہذا ہمیں اپنی ترجیحات کی فہرست کو خودتنقیدی اور خوداحتسابی کی نظروں سے دیکھنا ہوگا۔

عرض مکرر کے طور پر کہتے ہیں کہ اگرچہ تعلیم ایسا طرز عمل ہے جس میں معاشرتی ترقی کا راز مضمر ہے لیکن اگر یہی تعلیمی ادارے جن میں سکولز،کالجز،یونیورسٹیاں اور دینی مدارس سب شامل ہیں، ایسے افراد کا گڑھ بن جائے جو انتہائی پست درجے کی سوچ کے مالک ہوں جو ایک مخصوص سوچ، نظریہ،فرقہ اورجماعت سے تعلق رکھتے ہوں اور اپنی سوچ اور فکر کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہوں تو ایسی صورت حال میں آنے والے مستقبل میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنا یا اس کا خاتمہ آسان نہیں لگتا۔

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات

(26 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp