ساجد ٹکر
ہمارا شعور ہمارے سوچنے کی استطاعت کھا گیا ہے، ہم بھلے اور برے کی تمیز کھو چکے ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ یہ جملہ آپ کی سماعتوں، معاف کیجئے گا، آپ کی چشمان مبارک بلکہ آپ کی محترم نظروں کو بدصورت بلکہ حد درجہ احمقانہ، اصول سے بیگانہ اور تھوڑا سا باغیانہ لگ سکتا ہے لیکن کیا کریں کہ ہم نے تو ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے ایسی اوٹ پٹانگ جملہ بازی کا۔ اس میں ہمارا اتنا قصور بھی نہیں ہے، ہم ٹھہرے عصر جدید کے تقاضوں سے نابلد بلبل چمن بلکہ بلبل ویران چمن، ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ ہماری آہ و بکا سے کوئی فرق بھی پڑنے والا نہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری اوقات بھی نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم ہے کہ لوگ بہت آگے نکل چکے ہیں، ایکس اور سپیس کا زمانہ ہے، بلکہ آج کل تو ایکس اور سپیس بھی گئے گزرے معلوم ہو رہے ہیں کیونکہ ایلون مسک انسانوں کو مریخ پر بسانے کی بات کر رہا ہے۔ کیا پاگل آدمی ہے۔ ہمارا ہاتھ ابھی تک اپنے بھائی کے گریبان سے نہیں نکلا ہے اور پاگل ٹرمپ کا پاگل دوست ہمیں مریخ کے خواب دکھا رہا ہے۔ اس دیوانے کو کوئی جا کے سمجھائے کہ یہاں ہم لڑتے ہیں تو دو چار آدمی جھگڑا چکانے تو آ ہی جاتے ہیں اب اگر وہاں ہم لڑ پڑے تو کون ہوگا بیچ بچاؤ کرنے والا۔ لوگ بے روزگاری کو کوستے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہم اس سے کتنوں کی جان بچ رہی ہے۔ دیکھیں ناں، ہمارا دماغ تو ہر وقت گرم رہتا ہے۔ گاڑیوں میں، بازاروں میں اور راہ چلتے ہر وقت ہم لڑنے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے کہ ہمارے ہاں بے روزگاری ہے اور جونہی کوئی دو لوگ آپس میں لڑنا شروع ہوجاتے ہیں تو راہ چلتے یا سستانے کے لئے کسی دیوار کو ٹیک لگائے تین چار لوگ جھٹ سے اٹھ کر گلوخلاصی کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔
خیر ہم بات کر رہے تھے شعور کی۔ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے لوگ جن میں زیادہ تر نوجوان طبقہ شامل ہے، دعوی کر رہے ہیں کہ ان میں شعور آگیا ہے۔ روایتاً تو ہمیں اس بات پر خوش ہوجانا چاہئے لیکن ہم ٹھہرے شکی مزاج، گنوار اور خود سے ازحد متاثر قسم کے سر پھرے آدمی، تو ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سمجھدار لوگ کبھی بھی خود کو سمجھدار نہیں کہلواتے۔ جو بندہ سمجھدار ہو اور جتنا زیادہ سیکھتا ہے یا جتنا زیادہ ان کو چیزوں کا علم ہوتا ہے اتنا ہی وہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ کتنا کم جانتا ہے۔ لیکن یہاں تو الٹا کام ہو رہا ہے۔ دو لفظ پڑھ کر یا دو باتیں سن کر ہر کوئی شعور کے گھوڑے پر بیٹھ جاتا ہے، اور مسئلہ یہ ہے کہ اس گھوڑے میں لگام بھی نہیں ہے۔ پھر سوار کی مرضی کہ گھوڑے کو جس بھی رفتار سے دوڑائے۔ خواہ اس مشق میں خود کو نقصان پہنچائے یا کسی دوسرے کو۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے۔ سوشل میڈیا دور جدید کا ایک نہایت ہی مفید ہتھیار ہے۔ فوائد ہم اگر بیان کرنا شروع کر دیں تو سلسلہ طول پکڑ سکتا ہے، لیکن مدعا ہمارا یہ نہیں ہے۔ ہمارا مدعا سوشل میڈیا سے حاصل کردہ “شعور” ہے جس کو ہم حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کی پوسٹس کو دیکھ دیکھ کر باشعور ہو رہے ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہم صرف ان باتوں کو مانتے ہیں جو ہماری مرضی اور منشاء کے مطابق ہوں۔ اگر کوئی بات ہماری مرضی کے خلاف ہو تو ہم اس کو یا تو سازش مانتے ہیں یا من گھڑت۔ بات یہاں تک رہتی تو بھی خیر تھی لیکن ہم ٹھہرے گرم دماغ والے، تو بات کو گالم گلوچ تک نہ پہنچائے تو ہم پختون کس بات کے۔
آپ دیکھیں کہ جس سوشل میڈیا پر لوگ پیسے کما رہے ہیں، اپنا روزگار بڑھا رہے ہیں، اس پر ہم ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑے بیٹھے ہیں، اور پھر دعوی کرتے ہیں کہ ہم میں شعور آگیا ہے۔ ہمارے پختونخوا میں تو اتنا زیادہ شعور آگیا ہے کہ ہم اس کو ایکسپورٹ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اگر اس طرف توجہ دی گئی تو ہم تھوڑے ہی عرصے میں صوبہ کے قرضہ ہائے جات بھی اس سے ختم کر سکتے ہیں۔
قرضے کی بات آگئی تو اب اس پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالنی تو پڑے گی۔ اگر چہ بجلی کی قیمتوں کو دیکھ کر آج کل کسی چیز پر روشنی ڈالنا حماقت کے اولین زمرے میں آسکتا ہے لیکن بات نکلی ہے تو چلنے دو۔ ہمارے قرضے برق رفتاری سے بڑھ رہے ہیں، چونکہ ہم میں سے ایک کثیر تعداد کو خوب سارا شعور آگیا ہے اس لئے ہمیں دکھ نہیں رہیں، نا یہ سوچتے ہیں کہ اس صوبے کا کیا ہوگا، بس ہم اپنی دھن میں مست ہیں۔ وہ دھن جس کے پیچھے تبدیلی کا باجا بج رہا ہے۔
اس لئے ہم نے آغاز میں یہ فلسفیانہ بات کر دی تھی کہ ہمارا شعور ہمارا سوچ کھا گیا ہے۔ ہم نے سوچنے کہ صلاحیت کھو دی ہے۔ ہمارا صوبہ ہر محاذ پر رو بہ زوال ہے لیکن ہمیں ذرا بھی ملال نہیں کیونکہ ہم میں شعور آگیا ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر ننگی گالیوں پر اتر آئے ہیں لیکن ہمیں ذرہ بھر خیال نہیں کیونکہ ہم میں شعور آگیا ہے۔
یہ سطور لکھتے لکھتے ہم کو اس سوچ نے گھیر لیا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جس شعور کو ہم کوس رہے ہیں شاید وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہو۔ اس لئے ہماری مؤدبانہ بلکہ سرگردانہ آپ لوگوں سے یہ درخواست ہے کہ اگر کسی کو آج کل کے مخصوص شعور کی تھوڑی سی بھی سمجھ ہو تو براہ کرم ہمیں بھی سمجھا کر ہم پر احسان فرما دیجئیے۔
(26 جنوری 2025)