GHAG

یہ جنگ اب اپنی ہے

روخان یوسفزئی

کارل مارکس کا درج ذیل قول ہمارے ملک کے دانا دانشوروں،تجزیہ کاروں،لکھاریوں،مذہبی و سیاسی قائدین اور کالم نویسوں کو سنجیدگی سے بڑے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ ”فلسفی دنیا کی تشریح میں لگے ہوئے ہیں جب کہ اصل سوال دنیا کو بدلنے کا ہے“ اگر دیکھا،پڑھا اور پرکھا جائے تو ہمارے ہاں کے اکثر دانا دانشور اور تجزیہ کار آج بھی ملک میں موجودہ مذہبی انتہاپسندی،شدت پسندی،بنیاد پرستی،دہشت گردی اورفرقہ واریت کا تجزیہ ماضی کے پس منظر اور وجوہات میں تلاش کرکے پیش کرتے ہیں۔ٹھیک ہے صاحبو! ہم بھی علت و معلول کے فلسفے سے انکار نہیں کرتے پشتو میں کہتے ہیں کہ”بغیر بہانے مرگ نشتہ“ یعنی بغیر کسی بہانہ یا وجہ موت واقع نہیں ہوتی۔یا بقول شاعر کہ

سمجھے تھے ہم کہ عشق ہے اک حسن اتفاق

دیکھا تو واقعات کا ایک سلسلہ مُلا

 مگر آج کی صورت حال کا تقاضا یہ ہے

ماضی کو بھول جا ماضی گزر گیا

جب جب کریں گے یاد آنسو نکل پڑیں گے

ہمارا مدعا یہ ہے کہ ماضی کے پس منظر سے نکل کر موجودہ پیش منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اہم اور بنیادی سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیئے کہ اس انتہاپسندی اور شدت پسندی کے چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا جائے، اس ناسور کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے؟مطلب بات مرض کی تشخیص سے نکل کر اب اس کے مکمل علاج پر آکر رکی ہوئی ہے۔ اب ہمیں اس مرض کا علاج ڈھونڈنا ہے، اور یہ ہے ہمارے لیے آج کا سب سے ہم سوال۔لیکن اس کا جواب دینے سے قبل یہ تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ جنگ کس کی ہے؟ کیا اب بھی یہ امریکا یا مغربی دنیا کی جنگ ہے کہ نہیں؟ یہ اب ہماری اپنی جنگ بن چکی ہے یہ اب پاکستان کی اپنی سلامتی،امن اور ترقی کی جنگ ہے، کیونکہ عوام کی اکثریت کے دماغ میں اب بھی یہ بات بٹھائی جارہی ہے کہ یہ امریکا یا مغربی دنیا کی جنگ ہے جسے ہم لڑڑہے ہیں یعنی انہی بیرونی قوتوں کے مفادات کی خاطر ہم اس جنگ میں کھود پڑے ہیں۔ جس میں ہمارے حکمرانوں نے بزدلی لالچ یا اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنے ملک کو گھسیٹ رکھا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے قائدین،دائیں بازو کے دانا دانشور،میڈیا کے بعض سقراط و بقراط اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بعض سابق اہلکار اب بھی اپنی تحریروں،کتابوں اور ٹاک شوز میں یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ ہم پر ٹھونسی گئی ہے، جس کا واضح مقصد اور مطلب انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کو ایک طرح سپورٹ کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کسی اور سے پہلے اب ہماری اپنی جنگ ہے کیوں کہ یہ ہم ہی تو ہیں جو مذہبی جنون،شدت پسندی،فرقہ واریت اور دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔انسان دشمن ہمارے شہروں اور قصبوں میں ہمارے لوگوں کو، معصوم بچوں،عورتوں اور مردوں کو نہایت بے دردی سے مار رہے ہیں، ہماری پولیس سیکورٹی فورسز، امن پرست مذہبی و سیاسی قیادت  کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انتہاپسندوں اور بنیادپرستوں سے ہماری زندگی نہ صرف وبال جان بن چکی ہے بلکہ وہ ہمارے ملک پر نظریاتی قبضہ کرنے کی امید بھی رکھتے ہیں۔ اپنے اپنے فرقے کا خودساختہ اسلام نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ عناصر ہماری روایات،اقدار،کلچر اور ہماری امنگوں کے گلے کو اپنے اپنے عقائد کی چھریوں سے کاٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔یہ دیکھتے ہوئے کوئی اس خوش فہمی یا مغالطے میں نہ رہے کہ یہ جنگ کسی اور ملک یا قوم کے خلاف جنگ ہے۔کیوں کہ اب یہ صرف علاقائی یا قومی سرحدادت کی جنگ بھی نہ رہی بلکہ ایک منظم نظریاتی جنگ ہے۔یہ اعتدال پسندی،میانہ روی،روشن خیالی اور بنیادپرستی،تنگ نظری اور انتہاپسندی کے مابین تہذیب اور تشدد کے درمیان جنگ ہے اور انتہاپسندوں کے عزائم کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام دنیا کے خلاف جنگ کا ارداہ رکھتے ہیں۔ اس لئے حقیقی معنوں میں یہ ایک قسم کی عالمی جنگ ہے اس لئے دنیا کے کسی بھی قوم یا ملک کو اس سے بے نیاز اور غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

اگر اب بھی اقوام عالم نے بے اعتنائی اور تغافل سے کام لیا اور اس جنگ میں پاکستان کا ساتھ نہ دیا، پاکستان کی اخلاقی اور درکار وسائل میں مدد نہیں کی تو ان کو اس جنگ سے الگ تھلگ رہنے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ

زما پہ غم خوشحالی مہ کڑہ

سبا بہ ستا پہ کور نعرے د بیلتون وینہ

یعنی میرے غم پر خوشی مت منائیں کہ کل کو یہ غم آپ کے گھر کا مہمان ہوگا۔کل آپ میری طرح آہ و بکا کروگے۔ ہم انہی سطور میں بارہا ذکر کرچکے ہیں کہ جہاں جہاں سے انتہاپسندی،بنیاد پرستی اور تنگ نظری کی نظریاتی تعلیم دی جاتی ہے جہاں سے یہ پھیلائی جاتی ہے ان سرچشموں کو مکمل بند کرنا ہوگا اور یہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم نکتہ بھی ہے،کیونکہ یہ عناصر ہر اس شے سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں اسے مارنے کی ترغیب اور تربیت دیتے ہیں جس کی گنجائش ان کے اپنے نظام فکر اور خودساختہ اسلام میں نہیں ہے۔ بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ ادبی، صحافتی، ثقافتی،اخلاقی،اعتدال پسندی،روشن خیالی اور مذہبی اکثریت کی تائید کی جنگ ہے۔لہذا اس جنگ کو کامیاب اور فاتح بنانے کے لیے ملک کے تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

(3 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts