روخان یوسفزئی
پشتو کے بین القوامی شہرت یافتہ فلسفی شاعر،ادیب،مصور،مجسمہ ساز،سیاست دان اور دانشور غنی خان کہتے ہیں کہ شاعر ادیب لوگ بغیر چمڑے کے انسان ہوتے ہیں یہ لوگ معمولی کانٹے سے بھی زخمی اور لہولہان ہوجاتے ہیں۔غنی خان کی یہ بات مجھے اس واقعہ پڑھنے پر یاد آئی کہ جرمنی کے معروف ادیب اور دانشور نطشے ایک روز کسی چوراہے سے گزر رہا تھا تو اس نے ایک کوچوان کو دیکھا جو اپنے گھوڑے پہ چابک برسا رہا تھا، گھوڑا اپنی جگہ پہ جما مسلسل چابک کھا رہا تھا۔ نطشے نرم دل آدمی تھا یہ منظر دیکھ نہ سکا، بھاگا اور گھوڑے سے جا کے لپٹ گیا تاکہ اسے چابک سے بچا سکے۔ نطشے گھوڑے سے لپٹا ہوا روتا جاتا اور کہتا جاتا کہ میں درد اور تکلیف کو سمجھ سکتا ہوں۔ اس واقعے نے نطشے کا دماغ الٹ دیا اور وہ اپنی وفات تک ایک پاگل خانے میں داخل رہا۔اسے کہتے ہیں رحم دلی اور مخلوق دوستی۔
ہمارے ہاں تو بعض انسان ایسے درندے بنے ہوئے ہیں کہ جانوروں کی درد و تکلیف محسوس کرنا تو بہت دور کی بات ہے اپنے ہی انسانوں ہم مذہب اور ہم وطنوں کو بڑی بے دردی اور درندگی سے مارنے ان کا خون بہانے کو جہاد اور ثواب گردانتے ہیں۔ملک دشمن قوتوں اور عناصرکے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر اپنے ہی ملک کو غیرمستحکم اور معاشی طور پر مفلوج کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دنیا کا کونسا مذہب ہے جس میں اپنے ہی ہم وطنوں اورہم مذہب لوگوں کو مارنے کی اجازت ہے؟ یہ جو مذہب کے ٹھیکدار بنے ہوئے ہیں، اپنا خودساختہ اسلام دوسروں پر زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔مگر پشتو کی ایک کہاوت ہے ”چہ پہ زور کلی نہ کیگی“ یعنی زور زبردستی سے آپ کسی کو اپنا ہمنوا اور ساتھی نہیں بناسکتے ہو۔ نطشے تو ایک جانور پر تشدد برداشت نہ کر سکا اور پاگل خانے پہنچ گیا۔ اگر آج وہ ہمارے ملک اورمعاشرے میں موجود ہوتا تو پھر اور کیا دیکھتا اور سہتا۔ یہی نا کہ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں اڑتے انسانی اعضاءدیکھتا، معصوم بچوں کے لاش دیکھتا، مریضوں کو بلکتے دیکھتا، بھوک سے مرتے لوگ دیکھتا، کم سن بچوں کا ریپ ہوتے اور ان کو قتل ہوتے دیکھتا، آدھ ننگے ٹھٹھرتے، کانپتے بدن دیکھتا۔
دیکھا جائے تو آج ہمارے قتل کیے جانے والے معصوم انسانوں سے تو وہ گھوڑا ہی خوش قسمت تھا جس پر ہونے والے ظلم نے اپنے وقت کے بہترین دماغ کو اتنا دھچکا دیا کہ پھر وہ تا مرگ اس دھچکے سے باہر نہ آ سکا۔
یہاں تو وزراء، بیوروکریسی اور طبقہ اشرافیہ اور ان کے بچوں کی گاڑی روکنے کے جرم میں ٹریفک پولیس اور چوکیداروں کو سیدھی گولی ماری جاتی ہے۔ یہاں آج بھی جاگیرداروں،خوانین، وڈیروں اور نوابوں کے لیے غریب کی جان اور عزت مباح سمجھی جاتی ہے۔ اور اگر نطشے کبھی ہمارے ہسپتالوں کا چکر لگاتا تو شاید اس کا کلیجہ پھٹ جاتا۔ ایک بستر پہ دو مریض، جن میں سے ایک مر گیا ہو اور دوسرا مریض بالکل اس کے ساتھ لیٹا ہوا کیا محسوس کر رہا ہو گا؟ یہاں بجلی کا بل ادا نہ ہونے کی وجہ سے کوئی پنکھے سے جھول رہا ہے تو کوئی گھر کا کرایہ ادا نہ ہونے کی وجہ سے پھندا گلے میں ڈال رہا ہے۔ کسی کی ماں دوا نہ ملنے کی وجہ سے بلکتی ہوئی موت کی منتظر ہے تو کسی کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے سر میں چاندی بھرے بیٹھی ہے۔ کسی کے بچوں کو سالوں نیا لباس نہیں ملتا تو کسی کے پاس بیٹے کی فیس کے پیسے نہیں ہیں۔ کسی کے گھر میں ایک وقت کھانا پکتا ہے تو کوئی دو دو میل پیدل چل کے کام کی جگہ پہ پہنچتا ہے۔
یہاں آج بھی اکثریت کو بھوک، بیماری اور موت چاٹ رہی ہے، لیکن کوئی دماغ نہیں الٹ رہاہے۔نہ ہی کسی کا دل دکھتا ہے۔نہ کسی کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے ہیں،ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم انسانوں کی بستی میں نہیں بلکہ کسی جنگل میں رہ رہے ہیں۔
غریب کے فاقے پیٹ سے آنکھوں تک آن پہنچے اور سفید پوش، کفن پوش میں بدلنے لگا لیکن کسی کو کھانسی تک نہیں لگی۔ حاکمان وقت ہوں یا امیر سے امیر ترین ہوتے ہوئے امرائ،وزراءاور طبقہ اشرافیہ، ایک ایک لاکھ کے جوتے پہن کے ننگے پاوں والے بچوں کے ساتھ تصویریں بنواتے اور کئی کئی دن کے فاقوں سے بے حال بچوں کو نمکو اور سلانٹی کھلاتے ہوئے بے نیاز لوگ، پانچ پانچ فٹ پانی سے گزر کے آنے والوں کو ایک پلیٹ بریانی کھلانے والے لوگ ہوں یا جہازوں میں بیٹھ کے پانی میں ڈوبتے لوگ دیکھنے والے بادشاہ ہوں، یہ تمام کے تمام اس پاگل خانے میں مرنے والے نرم دل نطشے پہ قربان کر دینے کو جی چاہتا ہے۔
کتنا بزدل آدمی تھا نطشے جو حیوان کی تکلیف نہ دیکھ سکا اور کتنے بہادر اور سنگین دل لوگ ہیں ہم کہ کسی انسان کی دکھ درد اور تکلیف کو محسوس ہی نہیں کرتے۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی مگر غریب کی فاقوں سے مر گئی
(12 فروری 2025)