GHAG

پاکستان میں نظریاتی سیاست کا زوال کیوں؟

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

آج کل، خصوصاً پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو دیکھا جاسکتا ہے کہ پارٹی پروگراموں اور منشور کی جگہ محض نعروں نے لے لی ہے۔ رہنما سیاستدانوں کی بجائے کلٹ یا مرشد بن چکے ہیں جبکہ سیاسی کارکن ہر قسم کی برداشت سے محروم اور اندھی تقلید کا شکار چیلے بن گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں نظریاتی تنوع کا فقدان، رہنماؤں کی آمریت اور کارکنوں کی ناکافی تربیت شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ جماعتوں کی واضح نظریاتی بنیادیں مٹتی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے پالیسی سازی کی بجائے عوامی جذبات کو اُبھارنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ سیاسی رہنما ذاتی مفادات اور اقتدار کی بازی کے لیے کلٹ نما ماحول پیدا کر چکے ہیں، جہاں ان کی رائے کو بے تحاشہ ترجیح دی جاتی ہے۔ مزید برآں، کارکنوں کی تربیت کی کمی کی وجہ سے وہ آزادانہ سوچ اور تنقیدی تجزیہ سے محروم رہتے ہیں، نتیجتاً بغیر سوال کیے ہر نعرے اور ہدایت کو قبول کر لیتے ہیں اور نظریاتی مباحثے کے بجائے سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور بے بنیاد بیانات پھیلاتے ہیں ـ جو جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان عوامل کی بنا پر سیاسی جماعتوں کا ماحول ایسا ہو گیا ہے جہاں قائدانہ صلاحیتوں کی بجائے ذاتی وابستگی اور اندھی تقلید غالب ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں نظریاتی تجدید، قائدانہ تربیت اور کارکنوں کی صلاحیتوں کی ترقی کو اولین ترجیح دیں تاکہ سیاسی شعور میں اضافہ ہو، جمہوری عمل مضبوط ہو اور عوام کی بہتر نمائندگی ممکن ہو سکے۔ اس سلسلے میں تاریخاً اسٹڈی سرکلز ایک مؤثر ذریعہ رہے ہیں۔

سیاسی کارکنوں کے لیے اسٹڈی سرکلز کی تاریخ ایک اہم پہلو ہے جو سیاسی اور سماجی تحریکوں کے ارتقا سے منسلک ہے۔ ان کا آغاز 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں ہوا، جب سیاسی تحریکوں نے تعلیم اور شعور بیدار کر عوام کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ بنیادی طور پر مزدور تحریکوں، خاص طور پر سوشلسٹ اور مزدور یونینز کے ساتھ منسلک یہ تصور 19ویں صدی کے آخر میں روس، جرمنی اور برطانیہ میں مارکسی نظریات کے فروغ کے لیے متعارف کرایا گیا، جس کا مقصد کارکنوں کو معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔ روس میں، انقلابی تحریکوں، خاص طور پر بالشویک پارٹی نے اسٹڈی سرکلز کو انقلابی نظریات کے فروغ اور قیادت کی تیاری کے لیے استعمال کیا، اور لینن کے زیرِ اثر کارکنوں کو مارکسزم کے اصولوں سے روشناس کرایا گیا۔

20ویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و ہند میں سیاسی بیداری کے ساتھ اسٹڈی سرکلز کو آزادی کی تحریکوں میں بھی استعمال کیا گیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے کارکنوں نے ان کے ذریعے عوام میں آزادی اور حقوق کا شعور اجاگر کیا۔ تعلیمی اداروں میں یہ سرکلز طلبہ اور نوجوان کارکنوں کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ بنے اور اکثر انقلابی نظریات اور سامراجی طاقتوں کے خلاف بیداری پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 20ویں صدی کے وسط میں ترقی پذیر ممالک میں خصوصاً حقوقِ نسواں، کسانوں کی تحریکوں اور مزدور حقوق کے لیے بھی اسٹڈی سرکلز کا استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں، طلبہ تنظیموں اور دیگر سیاسی گروہوں نے سماجی مسائل پر بحث و مباحثے اور تنظیم سازی کے لیے ان کا سہارا لیا، جبکہ اسلامی سیاسی تنظیموں نے قرآن و حدیث کے ساتھ سماجی و سیاسی موضوعات پر گفتگو کے لیے بھی اسٹڈی سرکلز کا استعمال کیا۔

موجودہ دور میں اسٹڈی سرکلز کا تصور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہو چکا ہے۔ زوم، واٹس ایپ گروپس اور دیگر سوشل میڈیا ٹولز کے ذریعے سیاسی کارکن مختلف نظریات اور مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی مدد سے مختلف ممالک کے کارکن باہمی رابطہ قائم کر کے جدید مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلی، صنفی مساوات اور انسانی حقوق پر مباحثہ کرتے ہیں۔ اسٹڈی سرکلز ہمیشہ سے شعور بیدار کرنے اور تنظیم سازی کا مؤثر ذریعہ رہے ہیں، اور ان کی اہمیت آج بھی ویسی ہی برقرار ہے جیسا کہ ماضی میں تھی۔

اسٹڈی سرکلز سیاسی کارکنوں کے لیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ یہ تعلیم، تنقیدی سوچ اور عملی مہارتوں کی ترقی کے لیے جامع پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔ یہ حلقے کارکنوں کو نہ صرف سیاسی نظریات اور حکومتی ڈھانچوں کی گہری تفہیم عطا کرتے ہیں بلکہ انہیں تاریخ، سماجی و اقتصادی مسائل اور عصری چیلنجز کو سمجھنے کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ اس علم کی بنیاد پر کارکن اپنے نظریات کو مؤثر انداز میں پیش کر سکتے ہیں، غلط معلومات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور عوام کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کر سکتے ہیں۔

مزید برآں، اسٹڈی سرکل مباحثے اور مکالمے کے ذریعے تنقیدی سوچ اور تجزیاتی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ حلقے کارکنوں کو سکھاتے ہیں کہ مسائل کی گہرائی میں جا کر ان کے بنیادی عوامل کو سمجھا جائے اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کی جائیں۔ اس طرح کی تجزیاتی مہارت نہ صرف سیاسی مباحثے میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے بلکہ کارکنوں کی قیادت کی صلاحیتوں میں بھی بہتری لاتی ہے، جیسے خیالات کی پیشکش، مباحثے کی قیادت اور ٹیم ورک۔

اسٹڈی سرکل سیاسی کارکنوں کے درمیان یکجہتی اور ٹیم ورک کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ حلقے ایک مشترکہ مقصد اور اجتماعی جدوجہد کا احساس پیدا کرتے ہیں، جو سیاسی اہداف کے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے۔ عوامی مسائل پر گفتگو اور ان کے حل پر غور و فکر کے لیے اسٹڈی سرکل ایک مؤثر فورم کے طور پر کام کرتے ہیں، جس کی بدولت کارکن عوام کی بنیادی مشکلات کو سمجھ کر مناسب پالیسیاں اور مہمات ترتیب دے سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ اسٹڈی سرکل کارکنوں کو اخلاقی اصولوں اور اقدار پر غور کرنے کا قیمتی موقع فراہم کرتے ہیں۔ انصاف، دیانت داری اور احتساب جیسے موضوعات پر مباحثہ انہیں مضبوط اخلاقی بنیاد عطا کرتا ہے، جو غیر اخلاقی رویوں سے بچنے اور مثبت سیاسی شمولیت کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل مہمات، سوشل میڈیا حکمت عملیوں اور جدید سیاسی چیلنجز کو سمجھنے اور اپنانے کے لیے یہ حلقے ایک تربیتی مرکز کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح، اسٹڈی سرکل کارکنوں کو عوامی تقریر اور رابطہ کاری کی مہارتوں کو بہتر بنانے کا محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یہ کارکنوں کو ووٹروں سے مؤثر رابطہ قائم کرنے، کامیاب ریلیاں منعقد کرنے اور اپنے خیالات کو قائل کن انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں، جو نہ صرف سیاسی مقاصد کے حصول میں معاون ہیں بلکہ انہیں بااثر رہنما کے طور پر ابھرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔

اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں علم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری شناخت کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ علم ہمیں ماضی سے جوڑتا ہے، ہماری ثقافت اور روایات کی جڑوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور ہماری موجودہ حالت کو بہتر طور پر جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ نہ صرف یہ ہماری ثقافتی وراثت پر فخر کا باعث بنتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے اس کے تحفظ کی تحریک بھی فراہم کرتا ہے۔

آباؤ اجداد کی کہانیاں ہمیں استقامت، جدت اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قیمتی اسباق فراہم کرتی ہیں۔ ان کے تجربات اور جدوجہد نسلوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں، جس سے ہمیں ان قربانیوں اور اقدار کا احساس ہوتا ہے جو انہوں نے ہمارے لیے ادا کیں، اور یہ سمجھ ہمیں موجودہ مواقع اور سہولیات کے لیے زیادہ حساس اور شکر گزار بناتی ہے۔

اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں جاننا تاریخی اور ثقافتی بصیرت فراہم کرتا ہے جس کی بدولت ہم مختلف تہذیبوں، روایات اور ثقافتوں کی ترقی کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ علم دنیا کی متنوع کمیونٹیز کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک جاری کہانی کا حصہ ہیں، جسے ہمیں بہتر بنانا اور آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھنا ہے۔

مختصراً، اسٹڈی سرکل اور اپنے آباؤ اجداد کا علم دونوں ہماری ذاتی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ کارکنوں کو علم، مہارت اور اخلاقی بنیاد فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ مؤثر اور مثبت سیاسی عمل میں حصہ لے سکیں۔ یہ پلیٹ فارم نہ صرف باصلاحیت، اصولی اور بااثر رہنما پیدا کرتا ہے بلکہ ماضی کی میراث کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک روشن اور ترقی پسند مستقبل کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔سیاسی جماعتوں، رہنماؤں اور ان کے کارکنوں کی موجودہ زوال زدہ حالت کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ اور اگر سیاسی پارٹیاں واقعی پاکستان میں جمہوریت کی خواہاں ہیں تو انہیں خود اپنے اندر جمہوریت قائم کرنی ہوگی، رہنماؤں کو کلٹ پرستی کے فروغ کے بجائے حقیقی رہنما بننا ہوگا اور کارکنوں کو گالی گلوچ اور بدتمیزی سکھانے کے بجائے ان کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کی جائے۔ اس طرح جدید دور میں نظریاتی تجدید اور کارکنوں کی تربیت کو اولین ترجیح دے کر ہم ایک روشن، ترقی پسند اور منصفانہ مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

(26 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts