اے وسیم خٹک
آج، 28 فروری 2025 کو، خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد ایک خودکش دھماکہ ہوا۔ اس المناک واقعے میں جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور مدرسے کے نائب مہتمم، مولانا حامد الحق، سمیت چھ افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق، یہ ایک ٹارگٹڈ خودکش حملہ تھا جس میں مولانا حامد الحق کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے بعد علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی ہے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بزدلانہ اور مذموم دہشت گردی کی کارروائیاں ہمارے عزم کو پست نہیں کر سکتیں اور ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے نوشہرہ اور پشاور کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ہدایت کی اور زخمیوں کو فوری طبی امداد دینے کے احکامات جاری کیے۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کی۔
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ایک تاریخی مدرسہ ہے جس کی بنیاد مولانا عبدالحق نے 1947 میں رکھی تھی، جو برصغیر میں دیوبند مکتب فکر کے ایک بڑے عالم تھے۔ یہ مدرسہ جمعیت علمائے اسلام کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی معروف ہے، جنہیں 2018 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ مولانا سمیع الحق کو “بابائے طالبان” بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کا مدرسہ افغان طالبان کے کئی اہم رہنماؤں کا alma mater رہا ہے، جن میں مولانا جلال الدین حقانی، مولانا یونس خالص، اور مولانا محمد نبی محمدی شامل ہیں۔
یہ مدرسہ ابتداء میں صرف دینی علوم کی تدریس تک محدود تھا، لیکن 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد کے دوران اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔ پاکستان، سعودی عرب اور امریکہ کے تعاون سے جب سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع ہوا، تو جامعہ حقانیہ ایک مرکزی درسگاہ کے طور پر ابھری، جہاں سے کئی مجاہدین نے تعلیم حاصل کی۔ اسی وجہ سے اسے “جہاد یونیورسٹی” بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں، جب 1990ء کی دہائی میں طالبان کی تحریک اٹھی، تو اس مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ نے افغانستان میں کلیدی کردار ادا کیا۔
2001 میں امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا، تو پاکستان میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیا، جن میں مولانا سمیع الحق کی جماعت پیش پیش رہی۔ 2000 کی دہائی میں، جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا، تو ریاستی ادارے مولانا سمیع الحق سے رابطے میں رہے تاکہ شدت پسندی کو کم کرنے کے لیے ان کا اثر و رسوخ استعمال کیا جا سکے۔
اس مدرسے کا ریاست کے ساتھ تعلق ہمیشہ ایک پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ بعض مواقع پر ریاست نے اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، اور بعض اوقات مدرسے کی قیادت نے ریاستی پالیسیوں پر تنقید بھی کی۔ 2017 میں خیبر پختونخوا حکومت نے جامعہ حقانیہ کو 30 کروڑ روپے کی گرانٹ دی، جس پر کئی حلقوں نے اعتراض کیا، تاہم حکومت کا مؤقف تھا کہ اس مدرسے کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے یہ ضروری تھا۔
حالیہ برسوں میں، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں زیادہ تر حملے سیکورٹی فورسز پر مرکوز تھے، لیکن اس تازہ واقعے میں ایک مذہبی رہنما اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو کہ ایک تشویشناک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ صورتحال 2008-2009 کے حالات کی یاد دلاتی ہے جب صوبہ دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ گزشتہ دو سالوں میں مساجد کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کمی آئی تھی، اور آخری بڑا حملہ 2023 میں پشاور کی ایک مسجد پر ہوا تھا۔ تاہم، اگر اب شدت پسندوں کی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے اور مذہبی شخصیات کو دوبارہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال پہلے ہی چیلنجز سے دوچار ہے۔ حالیہ مہینوں میں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیاں بڑھی ہیں، اور زیادہ تر حملے سیکورٹی فورسز پر کیے گئے ہیں۔ لیکن اب، اگر شدت پسند عام شہریوں اور مذہبی قیادت کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، تو یہ ملک کے لیے ایک نیا سیکیورٹی بحران پیدا کر سکتا ہے۔
حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو اس نئی حکمت عملی کا مؤثر جواب دینے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ خاص طور پر خیبرپختونخوا میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید فعال کرنے اور مذہبی قیادت کی سکیورٹی سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔ اگر ریاست نے اس نئی لہر کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے، تو دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں کی محنت ضائع ہو سکتی ہے، اور ملک دوبارہ اسی دور میں جا سکتا ہے جو 2008-2009 میں دیکھا گیا تھا۔
(28 فروری 2025)