بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
دنیا کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں کسی مقبول رہنما کی گرفتاری یا موت کے بعد ان کی جماعتوں، حامیوں، اور مختلف کاروباری عناصر نے اس صورتِ حال کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ بعض اوقات، عوامی ہمدردی اور جذباتی وابستگی کو ایک مضبوط سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی جماعتوں نے اقتدار حاصل کیا۔ بعض مواقع پر، ان کی مقبولیت کو تجارتی برانڈ بنا کر مالی فوائد سمیٹے گئے۔ یہ رجحان ایک تاریخی اور عالمی حقیقت ہے، جہاں کئی مشہور سیاسی شخصیات کی گرفتاری یا موت کے بعد ان کا بیانیہ ایک طاقتور علامت کے طور پر ابھرا، جسے مختلف عناصر نے اپنے اپنے مفادات کے مطابق استعمال کیا۔
یہ اب ایک عام مشاہدہ بن چکا ہے کہ جب کوئی مقبول رہنما جیل جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے، تو وہ محض ایک یادگار یا نظریاتی علامت نہیں رہتا، بلکہ وہ ایک سیاسی اور کاروباری برانڈ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو متحرک کر کے انتخابات میں کامیابی کے لیے اس شخصیت کو مرکزی نکتہ بناتی ہیں، جبکہ کاروباری حلقے اس نام کو تجارتی سرگرمیوں، جیسے کہ مصنوعات کی فروخت، میڈیا مہمات اور دیگر اقتصادی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل میں عوام کی ہمدردی اور جذباتی لگاؤ کو بروئے کار لایا جاتا ہے، جو کئی مواقع پر طاقتور سیاسی تحریکوں اور مالی فوائد کا ذریعہ بنتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ایک منفرد صورتحال نے جنم لیا ہے، جہاں ان کا جیل جانا کئی عناصر کے لیے ایک مکمل کاروباری موقع بن چکا ہے۔ ان کی پارٹی کے متعدد رہنما ان کی گرفتاری سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور وہ لوگ جو کچھ عرصہ پہلے تک اپنے محلّے میں بھی غیر معروف تھے، عمران خان کے حامیوں کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر میڈیا پر تند و تیز بیانات دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما بن گئے ہیں۔ وہ عوامی ہمدردی اور عمران خان کے نام کا استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاست کو چمکا رہے ہیں۔
دوسری جانب، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے اس صورتِ حال کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ روزانہ نت نئی افواہیں، قیاس آرائیاں اور غیر مصدقہ خبریں پھیلا کر پی ٹی آئی کے حامیوں کو متوجہ کر رہے ہیں، جس سے ان کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں اور اشتہارات سے بھاری کمائی ہو رہی ہے۔ کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں بہترین سہولیات دی جا رہی ہیں، تو کوئی ان کی صحت کے بارے میں سنسنی خیز دعوے کر کے عوام کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ ہر روز ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا شخصیات کی کوئی ایک بھی بڑی خبر اب تک درست ثابت نہیں ہوئی، لیکن چونکہ عمران خان کے حامی بھی وہی سننا چاہتے ہیں جو ان کے نظریات سے مطابقت رکھتا ہو، اس لیے ان عناصر کے لیے یہ سب ایک زبردست منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
یہ رجحان صرف میڈیا تک محدود نہیں بلکہ بازاروں میں بھی عمران خان کے نام کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ عام دکانداروں سے لے کر بڑے کاروباری حلقوں تک، سبھی اس موقع کو مالی فوائد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بیکری، پکوڑوں اور سموسوں سے لے کر جوتے، کپڑے، ٹی شرٹس، کیپس اور دیگر اشیاء عمران خان کے نام سے فروخت کی جا رہی ہیں۔ بیرونِ ملک بھی ان کے نام پر خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ چندہ مہمات زور و شور سے جاری ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی جیل صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں بلکہ ایک مکمل کاروباری ماڈل بن چکی ہے، جہاں ان کی گرفتاری نے کئی لوگوں کے لیے کمانے کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ان تمام عناصر کی حرکات اور بیانیے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی یہی خواہش ہے کہ عمران خان لمبے عرصے تک جیل میں رہیں، تاکہ ان کا سیاسی اور مالی کاروبار چلتا رہے۔
اس سے پہلے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نے ان کے نام کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور عوامی ہمدردی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کیا۔ یہاں بھی سیاست دانوں نے سیاسی فوائد، جبکہ کاروباری حلقوں نے تجارتی فوائد حاصل کیے۔ اس وقت سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کا رجحان نہیں تھا، لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر، ان کے ناموں سے جڑے نعرے، جھنڈے، کپڑے اور دیگر اشیاء فروخت کر کے کئی کاروباری افراد نے خوب پیسہ کمایا۔
اسی طرح، نواز شریف کی گرفتاری کے دوران ان کی جماعت نے عوامی ہمدردی کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ جیل میں ان کی مبینہ مشکلات کو بیانیے میں ڈھالا گیا، جبکہ مارکیٹ میں کچھ افراد نے ان کے نام کو تجارتی سطح پر بھی فروخت کیا۔
عالمی سطح پر بھی یہ رجحان بار بار دیکھنے میں آیا ہے۔ نیلسن منڈیلا کی 27 سالہ جیل کو افریقی نیشنل کانگریس (ANC) نے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جس کے نتیجے میں وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے۔ ان کے نام سے جڑے یادگاری سکے، شرٹس، کتابیں اور دیگر مصنوعات بیچ کر مختلف لوگوں نے کمائی کی۔ اسی طرح، ہندوستان میں مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن، ضیاء الرحمٰن، عراق میں صدام حسین، لیبیا میں معمر قذافی، رومانیہ میں نیکولائے چاؤشسکو، کانگو میں لوراں دیزیرے کبیلا، میکسیکو میں ماکسمیلیان اول، برازیل میں سابق صدر لولا دا سلوا، اور میانمار میں آنگ سان سو چی کی گرفتاریوں اور قید کو ان کی جماعتوں یا وابستہ سیاسی قوتوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے استعمال کیا۔
یہ تمام مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ چاہے جیل ہو یا موت، مقبول لیڈروں کا نام سیاست اور کاروبار دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ان کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں، تو کچھ ان کی شناخت کو کاروباری مواقع میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ عمران خان کی جیل ہو یا نواز شریف کی ، منڈیلا کی قید ہو یا صدام حسین کی پھانسی، تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ سیاست اور کاروبار ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں، اور عوامی جذبات کو اکثر ذاتی اور معاشی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ وہ ایسے ابن الوقت سیاست دانوں، مفاد پرست کاروباریوں اور موقع پرست یوٹیوبرز سے ہوشیار رہیں جو کارکنوں کی اپنے رہنماؤں سے والہانہ وابستگی اور ان کے جذبات سے کھیل کر اپنے ذاتی سیاسی یا مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ یہ سیاست دان عام طور پر صرف اقتدار کے دوران یا اس وقت تک ساتھ ہوتے ہیں جب تک ان کے رہنما عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے، تو خاص طور پر تحریک انصاف کے بیشتر رہنما ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر مختلف جماعتوں سے ہوتے ہوئے آج عمران خان کی مقبولیت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ بہت سے ایسے سیاست دان ہیں جو اقتدار کے ختم ہوتے ہی یا مشکل حالات آتے ہی غائب ہو گئے۔ یہی حال کئی کاروباری شخصیات اور یوٹیوبرز کا بھی ہے، جو صرف اپنی مالی منفعت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب کسی اور جگہ زیادہ منافع یا بہتر مواقع نظر آتے ہیں تو فوراً اپنا راستہ بدل لیتے ہیں، یہی ان کی تاریخ رہی ہے۔
سیاسی کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقتی جذبات کے بہاؤ میں بہنے کے بجائے حقیقت پسندی اور اصولی سیاست کو اپنائیں تاکہ وہ کسی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں اور اپنی جماعت کے نظریے کے اصل محافظ بن سکیں۔
عوام کو چاہیے کہ وہ یوٹیوبرز اور دیگر انفلوئنسرز کی پھیلائی ہوئی خبروں کو تحقیق کے بغیر قبول نہ کریں اور سیاست کو شخصیات کے بجائے اصولوں اور نظریات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں ۔
پاکستانی عوام کو اب شخصیات کے بجائے نظامی تبدیلی پر غور کرنا ہوگا۔ اگر ہر بار ایک مقبول رہنما کی گرفتاری یا شہادت کے بعد عوامی ہمدردی کا استعمال صرف چند افراد کے سیاسی یا کاروباری فائدے کے لیے ہوتا رہے، تو اس کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسے رہے گا۔ پاکستانی عوام کو اپنی سیاسی بصیرت کو اس مقام پر لانا ہوگا جہاں وہ نظریات اور پالیسیز کی بنیاد پر سیاست کو پرکھیں، نہ کہ محض جذباتی وابستگیوں اور شخصیات کے گرد گھومنے والی سیاست کو۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جو قوموں کو حقیقی تبدیلی کی طرف لے جاتی ہے۔
(5 مارچ 2025)