افغان حکومت اور القاعدہ ٹی ٹی پی کی مسلسل سرپرستی کرتی آرہی ہیں، آصف درانی
پاکستان کو اقوام متحدہ اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ ملکر دہشت گردی سے نمٹنا ہوگا، سابق نمائندہ برائے افغانستان
افغان حکومت یا ٹی ٹی پی وغیرہ سے مذاکرات صوبائی حکومت کا ڈومین ہی نہیں ہے، حماد حسن
خیبرپختونخوا کی حکومت اور پی ٹی آئی نے صوبے کو آگ میں دھکیل دیا ہے، سینیٹر زاہد خان
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، ایمل ولی خان
پشاور (خصوصی رپورٹ) مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ممتاز تجزیہ کاروں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیکورٹی صورتحال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو تمام نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرتے ہوئے ریاستی رٹ کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے لیے سیاسی ، دفاعی اور انتظامی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آصف درانی، سابق خصوصی نمائندہ برائے افغانستان
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق خصوصی نمائندے اور ممتاز تجزیہ کار آصف درانی نے ایک خصوصی مضمون میں لکھا ہے کہ افغانستان کی حکومت اور القاعدہ جیسی قوتیں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر کی مکمل سرپرستی کر رہی ہیں اور افغان حکومت میں شامل حقانی نیٹورک خوست ، پکتیکا اور بعض دیگر صوبوں میں سہولیات کی فراہمی میں ملوث ہے حالانکہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کا حامی گروپ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کے مطابق افغانستان کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجووں کی تعداد بعض رپورٹس کے مطابق تقریباً 6500 ہے جبکہ افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کمانڈرز کو تین سے زائد گیسٹ ہاؤسز یا ٹھکانوں میں ٹھہرایا ہوا ہے جہاں ان کو سیکورٹی کے علاوہ خصوصی مراعات اور سہولیات حاصل ہیں۔ آصف درانی کے بقول القاعدہ نہ صرف ٹی ٹی پی کو تربیت اور سہولیات فراہم کر رہی ہیں بلکہ اس کوشش میں ہے کہ علاقائی پراکسیز کے لیے اسے استعمال کیا جائے ۔ اسی طرح داعش خراسان اور متعدد دیگر گروپ بھی پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ عوام کی مدد سے تمام ریاستی اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں وسیع تر اصلاحات پر توجہ دی جائے۔
سینیٹر زاہد خان، ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات ن لیگ
مسلم لیگ ن کے نئے ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات سینیٹر زاہد خان نے اس ضمن میں “ایف ایم سنو پختونخوا” کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کو پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت نے ایک پالیسی کے تحت بدامنی کی آگ میں دھکیل دیا ہے اب کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے افغانستان جرگہ بھیج رہی ہے حالانکہ ایسا کرنا صوبائی حکومت کا اختیار اور ڈومین ہی نہیں ہے۔ سینیٹر زاہد خان کے مطابق پی ٹی آئی اور ٹی ٹی پی میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبائی حکومت دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے حالانکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سیکورٹی معاملات صوبائی حکومت کی ذمہ داریوں میں آتے ہیں اور اگر صوبائی حکومت سے بدامنی قابو نہیں ہورہی تو وہ طریقہ کار کے مطابق وفاقی حکومت کی خدمات حاصل کریں۔
حماد حسن، سینئر تجزیہ کار
سینئر تجزیہ کار حماد حسن کے بقول پی ٹی آئی نے پاکستان میں انتشار پسندی کی سیاست کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے جبکہ دوسری جانب اس کی صوبائی حکومت نہ صرف کرپشن میں ملوث ہے بلکہ یہ دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی بھی کرتی آرہی ہے جو کہ ناقابل برداشت طرزِ عمل ہے۔ ان کے مطابق امریکی صدر اور مختلف امریکی عہدیداروں کی جانب سے کاؤنٹر ٹیررازم کی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کی تعریف اور “شکریہ” نے نہ صرف دہشت گرد گروپوں اور ان کے حامیوں بلکہ پی ٹی آئی کو بھی مایوسی سے دوچار کردیا ہے کیونکہ ان کو ٹرمپ حکومت سے پاکستان مخالف اقدامات کی توقع تھی اور اس مقصد کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی گئی تھی ۔ حماد حسن کے بقول پی ٹی آئی فرسٹریشن کا شکار ہوگئی ہے اور ہے درپے ناکامیوں کے باعث اب اس نے عید کے بعد ایک اور احتجاج کا اعلان کردیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پارٹی بغاوت سے باز نہیں آرہی۔
ایمل ولی خان، مرکزی صدر اے این پی
دوسری جانب اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان پر زور دیا ہے کہ وفاقی حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات کرے اور عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ ان کے مطابق دونوں صوبوں کی سیکورٹی صورتحال دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے جس کے باعث عوام کو شدید نوعیت کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
(10 مارچ 2025)