پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی صدارت میں گزشتہ روز افغانستان کا دورہ کیا جہاں نہ صرف یہ کہ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے درمیان مشترکہ ریلوے ٹریک ، سسٹم کے معاہدے پر دستخط کئے گئے بلکہ اسحاق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا حسن اخوند اور وزیر دفاع سراج الدین حقانی کے ساتھ خصوصی تبادلہ خیال بھی کیا ۔ پاکستانی وفد میں ریلوے کے وفاقی وزیر حنیف عباسی اور نمایندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان بھی شامل تھے ۔ میڈیا رپورٹس اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں اعلیٰ افغان عہدیداروں اور پاکستان کے نائب وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دیگر دو طرفہ معاملات کے علاؤہ کراس بارڈر ٹیررازم اور علاقائی سیکیورٹی صورتحال پر بھی بات چیت کی گئی ۔
ماہرین اس ملاقات کو اس پس منظر میں اہم قرار دے رہے ہیں کہ رواں برس وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم کا یہ افغانستان کا دوسرا دورہ ہے ۔ اپریل 2025 کے دوران کیے گئے دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان موجود تلخی اور کشیدگی میں کمی واقع ہوئی تھی ۔ اس کے بعد پاکستان ، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ نے بیجنگ میں بھی ملاقاتیں کی تھیں جس کے نتیجے میں ایک جوائنٹ کاؤنٹر ٹیررازم روڈ میپ پر کام کا آغاز کیا گیا تاہم بعض دیگر چیلنجز کے باعث اس ضمن میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہوسکی مگر چین نہ صرف یہ کہ سی پیک میں افغانستان کو شامل کرنے پر آمادہ ہوا بلکہ وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید بہتر بنانے کی کوششیں بھی کرتا رہا ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام کوششوں اور رابطوں کے باوجود پاکستان کے خلاف برسر پیکار مختلف گروپ پھر بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے جس کے باعث تعلقات چاہتے ہوئے بھی نارمل نہ ہوسکے اور بداعتمادی قائم رہی ۔
بعض رپورٹس کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت نے متعدد سرحدی علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے بعض ٹھکانے نہ صرف ختم کرایے بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں کہ متعدد ایسے کمانڈروں کو گرفتار بھی کیا گیا جو کہ اپنے حملہ آوروں کو پاکستان بھیجتے رہے ۔ اس دوران یہ خبر پھر سے گردش کرنے لگی کہ بعض دوست ممالک نے افغانستان میں موجود ان ٹی ٹی پی کمانڈرز اور ان کے اہل خانہ کو بعض ان افغان صوبوں میں ایک مصالحتی عمل کے تحت منتقل کرنے کی اپنی کوششیں پھر سے شروع کردی ہیں جو کہ پاکستان کی سرحدوں سے دوری پر واقع ہیں ۔ یہ فارمولا بنیادی طور پر پاکستان کے دوست ممالک قطر اور یو اے ای کی جانب سے ڈھائی برس قبل سامنے آیا تھا اور اس ضمن کافی پیشرفت بھی ہوئی تھی مگر بعد میں بوجوہ اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا ۔ اس روڈ میپ یا فارمولے کو چین اور سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار پھر اس فارمولے پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ پاکستان کے خدشات میں کمی لائی جاسکے اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان موجود کشیدگی کو کم کیا جائے ۔
اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہے گی تب تک بدگمانی اور کشیدگی کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ ” ریجنل ری الایمنت” کی جاری کوششوں کے خلاف توقع بہت مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور پاکستان ، افغانستان ، ازبکستان کے درمیان ہونے والے حالیہ اہم معاہدے سمیت متعدد دیگر ایسے بڑے منصوبے بھی پایپ لاین میں ہیں جن کے باعث کراس بارڈر ٹیررازم کا خاتمہ افغانستان کے لیے بھی لازمی ہو جائے گا ۔
(جولائی 18، 2025)