خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ہفتے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال پر مشاورت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو دعوت دی جائے گی ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں مجوزہ اے پی سی کے تناظر میں جلد امن قائم کیا جائے گا اور صوبائی حکومت اس ضمن میں اپنی زمہ داریوں سے آگاہ ہے ۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دو طرفہ کارروائیاں جاری ہیں ۔ اس سلسلے میں اگر ایک جانب فورسز نے افغانستان سے دراندازی کرنے والے پانچ افغان خودکش حملہ آوروں کو سرحدی علاقے منڈی خیل میں گرفتار کرلیا تو دوسری جانب ہفتہ 19 جولائی کو ہنگو میں پولیس اور ایک طالبان گروپ کے درمیان جھڑپ میں متعدد حملہ آوروں کو ہلاک اور بعض کو زخمی کردیا گیا ۔ اس جھڑپ کے دوران ڈی پی او ہنگو کو بھی 3 گولیاں لگیں جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے تاہم انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے میڈیا کو بتایا کہ ڈی پی او کی حالت خطرے سے باہر ہے اور یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف پولیس کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
اس سے ایک روز قبل بنوں میں بھی ایک کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں حافظ گل بہادر گروپ کے تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ اسی دوران بنوں کے تھانہ میریان پر کواڈ کاپٹر کے ذریعے حملے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں جس کے بارے میں کہا گیا کہ سب انسپکٹر سمیت دو دیگر پولیس والے زخمی ہوئے ۔ اس عرصے کے دوران جماعت الاحرار نے جہاں یہ اعلان کیا کہ وہ ایک اور گروپ کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں کا آغاز کرنے جارہی ہے تو گروپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے اورکزی میں ایف سی کے ایک اہلکار کو نشانہ بناکر اس کی لاش اپنی تحویل میں لے لی جس کو بعد میں ایک جرگے کے حوالے کیا گیا ۔
اگر ایک جانب یہ دو طرفہ کارروائیاں جاری رہیں تو دوسری طرف مومند اور کرم میں ہزاروں افراد نے امن کے حق میں ریلیاں نکالتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ مسلسل فوجی آپریشنز کے باوجود خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں میں امن قائم نہیں ہو پارہا ۔ اس سے قبل ایسی ہی ایک بڑی ریلی باجوڑ میں بھی نکالی گئی تھی ۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر علاقائی امور پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے کہا کہ پاکستان خطے کے ایک اہم ملک کے پور پر ابھرنے لگا ہے اور اس کی عالمی اور علاقائی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اس لیے اس کو اندرونی عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے پراکسیز کو پھر سے متحرک کیا گیا ہے ۔
تجزیہ کار فہمیدہ یوسفی کے بقول بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھارت اور بعض دیگر پاکستان مخالف ممالک پھر سے سرگرم عمل ہوگئے ہیں کیونکہ 10 مئی کو بھارت کی جو شکست اور سبکی ہوئی ہے اس کے پیشِ نظر اب وہ پاکستان کے اندر مزید سرگرم عمل ہوگیا ہے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جنگ آخری یا فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوگئی ہے اس لئے ریاست کو قومی اتفاق رائے سے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں جہاں صوبائی حکومت کے مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس کی کافی اہمیت ہے وہاں 26 جولائی کو بلائے اے این پی کے قومی امن جرگہ میں بھی قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔
(جولائی 19، 205)