GHAG

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی نئی حکمت عملی

اے وسیم خٹک

آپریشن عزمِ استحکام کو بہتر سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردُالفساد جیسے بڑے آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردوں کے مضبوط نیٹ ورکس کو توڑ دیا گیا تھا، جس کی بدولت ملک میں نسبتاً امن قائم ہوا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ بعض بیرونی اور اندرونی عوامل کی وجہ سے عسکریت پسند گروہ ایک بار پھر منظم ہونے لگے۔ خاص طور پر پچھلی حکومت کی کچھ پالیسیوں کے نتیجے میں، جو عسکریت پسند افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھے، وہ واپس پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں پھر سے دہشت گردی کی سرگرمیاں شروع کردیں۔

خیبر پختونخوا، بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا، جن کا سب سے بڑا ہدف پولیس اور سیکیورٹی فورسز بنے۔ لکی مروت، بنوں، اور پشاور جیسے علاقوں میں پولیس اہلکاروں پر حملے روز کا معمول بن گئے۔ اس دوران کئی سپاہیوں اور افسران نے ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ ان حالات میں آپریشن عزمِ استحکام کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی تاکہ دہشت گردی کی اس نئی لہر کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

بلوچستان میں خاص طور پر دہشت گردانہ سرگرمیاں زیادہ سنگین شکل اختیار کر گئیں، جہاں غیر مسلح مزدوروں کو بسوں سے اتار کر صرف ان کے پنجابی ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ یہ واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دشمن عناصر فرقہ واریت اور نسلی منافرت کو ہوا دے کر ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنانا اس بات کی علامت ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو معلوم ہے کہ پنجاب ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور وہاں عدم استحکام پیدا کر کے پورے ملک کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔

اس بابت وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر میں اس معاملے پر سخت مؤقف اپنایا گیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ بے گناہ شہریوں کو شہید کر کے اپنے عزائم میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے عزم ظاہر کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے گی اور فوج کو تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں گے تاکہ دشمنوں کے منصوبے ناکام بنائے جا سکیں۔

آپریشن عزمِ استحکام کا مقصد محض دہشت گردوں کو شکست دینا نہیں، بلکہ ملک میں دیرپا امن اور استحکام قائم کرنا ہے۔ اس آپریشن کے تحت نہ صرف عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی بلکہ ان کی مالی معاونت کرنے والے اور انہیں پناہ فراہم کرنے والے عناصر کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہ صرف ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ اقتصادی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

ایک اور اہم پہلو جو وزیراعظم کی تقریر میں سامنے آیا، وہ سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کا تحفظ ہے۔ دہشت گرد گروہ نہ صرف پاکستان کی اندرونی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ سی پیک جیسے بڑے منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو کمزور کرنا اور اس خطے میں ترقیاتی کاموں کو روکنا ہے۔ تاہم، حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ سی پیک کا تحفظ اولین ترجیح ہوگی اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔

یہ تمام عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپریشن عزمِ استحکام پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ اس آپریشن کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں کی جا رہی ہیں تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے اور ملک میں پائیدار امن و امان بحال کیا جا سکے۔ عوام کی جانب سے بھی اس آپریشن کے بارے میں مثبت رائے سامنے آ رہی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنے گا۔

حکومت اور فوج کے اس مشترکہ عزم کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام دہشت گردوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان ان کی بربریت اور نفرت انگیز کارروائیوں کے سامنے کبھی سر نہیں جھکائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp