GHAG

خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال: جنوبی اضلاع میں حکومتی رٹ کا چیلنج

اے وسیم خٹک

ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں امن و امان کی خراب صورتحال کو نمایاں کیا ہے۔ عبدالخیل اور حسن خیل کے درمیان مین روڈ پر دن دیہاڑے مسلح افراد کا ناکہ لگا کر سرکاری اہلکاروں کی تلاشی لینا، نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہےبلکہ عوامی تحفظ کے حوالے سے بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے آئی جی پی، وزیراعلیٰ اور گورنر تینوں کے علاقے میں ایسے واقعات کے باوجود حکومتی توجہ نہ ہونے کا گلہ کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح بنوں میں ایس این جی پی ایل کے تین ملازمین کا اغوا ہونا، جس میں دو کا تعلق لکی مروت اور ایک کا ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، مزید سیکیورٹی چیلنجز کی نشاندہی کرتا ہے۔ اغوا کاروں کی جانب سے ویڈیوز جاری کرنا اور مطالبات کو زور دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجرم اب حکومت کی رٹ کو کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں۔ اغوا کی یہ واردات، جس میں سرکاری گاڑی میں ڈیزل لے جایا جا رہا تھا، اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اب جرائم پیشہ افراد کی اپروچ وسیع ہو کر پنجاب تک پہنچ گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف ابھی تک کوئی بڑا آپریشن شروع نہ کرنا انتہائی تشویشناک امر ہے۔ یہ مجرم اب ویڈیوز کے ذریعے سرکاری حکام کو دھمکیاں دے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور حکومت کی عملداری کو کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، سیاسی بے چینی ملک بھر میں جاری ہے، خصوصاً خیبر پختونخوا میں جہاں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان حالات کی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

پی ٹی آئی کے اندرونی خلفشار بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، خصوصاً شکیل خان کے مستعفی ہونے کے بعد۔ اس سیاسی عدم استحکام نے جنوبی اضلاع کے امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ حالیہ واقعات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ جب تک تمام سیاسی جماعتیں اور وفاقی حکومت ایک پیج پر نہیں آتیں، خیبر پختونخوا میں امن کا قیام ممکن نہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خیبر پختونخواکے جنوبی اضلاع میں حکومتی عملداری کمزور پڑ چکی ہے۔ غیر مؤثر کارروائیاں اور جرائم پیشہ افراد کی بڑھتی ہوئی جرات اس بات کا ثبوت ہے کہ ان علاقوں میں امن کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر ان علاقوں میں سیکیورٹی آپریشنز شروع کرے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور ان علاقوں میں مجرموں کا زور توڑا جا سکے۔

حالیہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ خیبر پختونخوامیں سیاسی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ امن و امان کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور ان مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ نہ صرف جنوبی اضلاع بلکہ پورے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ان واقعات کا فوری نوٹس لے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فوری کارروائی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ خیبر پختونخوا کے عوام کو سکون اور تحفظ کا احساس ہو۔ امن کے قیام کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp