GHAG

پی ٹی آئی کی فائنل کال پر سیاسی قائدین اور ماہرین کی آراء

کرم کے فسادات سے صوبائی حکومت لاتعلق رہی ہے، میاں افتخار حسین

پرتشدد واقعات اور پرامن احتجاج میں فرق ہوتا ہے، قیصر شریف

پی ٹی آئی کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے مگر وفاقی حکومت بھی کم نہیں ہے، اجمل وزیر

فائنل کال “مس کال” ثابت ہوگئی ہے ، خیبرپختونخوا کو میدان جنگ بنایا گیا ہے، فہمیدہ یوسفی

پی ٹی آئی کو شدید اختلافات کا سامنا ہے، بشریٰ بی بی نے پارٹی ٹیک اوور کی ہے، عرفان خان

پشتونوں کے امیج کو ہر سطح پر خراب کرنے کی کوشش جاری ہے، حسن خان

پشاور (غگ رپورٹ) سیاسی رہنماؤں اور ممتاز تجزیہ کاروں نے پی ٹی آئی کی جاری “مہم جوئی” کو خطرناک مگر لاحاصل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جاری کشیدگی نے پورے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے تاہم ایک نکتے پر سب کا اتفاق ہونا چاہیے کہ مطالبات منوانے کے لیے تشدد اور مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔

میاں افتخارحسین، صوبائی صدر اے این پی

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین کے مطابق صوبائی حکومت نہ صرف اس لڑائی میں صوبے کے وسائل استعمال کرتی آرہی ہے بلکہ یہ کرم کے افسوسناک واقعات اور فسادات سمیت صوبے میں سیکورٹی کی بگڑتی صورتحال کی بھی بلاواسطہ طور پر ذمہ دار ہے۔ ان کے مطابق افسوسناک امر یہ ہے کہ پشتونوں کو مروایا بھی جارہاہے اور ان کی کردار کشی بھی جاری ہے۔

قیصر شریف، ترجمان جماعت اسلامی

جماعت اسلامی کے مرکزی ترجمان قیصر شریف نے اس ضمن میں بتایا کہ پرتشدد سیاست کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ کہ پرامن احتجاج اور پرتشدد مزاحمت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول جماعت اسلامی نے کچھ عرصہ قبل ایک پرامن احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا تو اس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تاہم جب پارٹی نے محسوس کیا کہ ریاست کے ساتھ تصادم کی نوبت آسکتی ہے تو ہم نے اسلام آباد جانے کی بجائے ایک نواحی علاقے میں ڈیرے ڈال کر نہ صرف پُرامن طریقے سے احتجاج کیا بلکہ مذاکرات بھی کیے۔

اجمل خان وزیر، سابق مشیراطلاعات خیبرپختونخوا

خیبرپختونخوا حکومت کے سابق ترجمان اجمل خان وزیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے یہ پی ٹی آئی کی سیاست کا وطیرہ رہا ہے تاہم وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کا طرز عمل بھی درست نہیں ہے۔ ان کے بقول کرم سمیت قبائلی علاقے اور جنوبی اضلاع بدترین حملوں کی لپیٹ میں ہیں مگر وزیر اعلیٰ ، گورنر ، انسپکٹر جنرل پولیس کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ کو بھی اس صورتحال کے نتائج اور اثرات کا کوئی ادراک نہیں ہورہا اور سب پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کو اندرونی کشمکش اور اختلافات کا سامنا ہے مگر اس کے باوجود یہ ریاست پر حملہ آور ہے اور صورت حال بشریٰ بی بی کی انٹری کے بعد مزید خراب ہوگئی ہے۔

حسن خان، سینئر تجزیہ کار

سینئر تجزیہ کار حسن خان کے مطابق اس تمام دو طرفہ مہم جوئی اور کشیدگی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پشتونوں کو ایک بار پھر نہ صرف استعمال کیا جارہا ہے بلکہ ان کو بہادری کے “تمغے” لگاکر بدنام کرنے کا سلسلہ مزید تیز کردیا گیا ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ انقلاب یا آزادی کی ضرورت صرف اٹک کے اس پار رہنے والوں کو ہے۔

فہمیدہ یوسفی، تجزیہ کار

تجزیہ کار فہمیدہ یوسفی نے کہا ہے کہ عمران خان کی فائنل کال نہ صرف یہ کہ “مس کال” ثابت ہوگئی ہے بلکہ اس تمام مہم جوئی کا حتمی نتیجہ پی ٹی آئی کی شکست اور خاتمے کی صورت میں نکل آئے گا۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کی پلاننگ اور کوشش ہے کہ لاشیں گرادی جائے حالانکہ ان کو علم ہے کہ اس طرح کی ہتھکنڈوں سے نہ تو ریاست کو جھکایا جاسکتا ہے اور نا ہی عمران خان کی رہائی ممکن ہے۔ ان کے مطابق تین صوبے عملاً اس ” کال” سے لاتعلق ہیں صرف خیبرپختونخوا پر ان کی مزاحمت کا انحصار ہے کیونکہ وہاں کی صوبائی حکومت اور اس کے وسائل کو اس کے باوجود استعمال کیا جارہا ہے کہ صوبہ  حالات جنگ کے علاوہ بدترین کرپشن اور بد انتظامی سے دوچار ہے۔

عرفان خان، صحافی

پشاور کے نوجوان صحافی عرفان خان کے مطابق ابتدائی دو دنوں کے دوران خیبرپختونخوا حکومت کے وسائل اور بشریٰ بی بی کی سیاسی ٹیک اوور، موجودگی کے باوجود لاکھوں کا احتجاج تو دور کی بات ایک لاکھ کی تعداد بھی جمع نہیں کرائی جاسکی۔ ان کے بقول دوسرے صوبے لاتعلق رہے ہیں اور راولپنڈی سے بھی کارکن نہیں نکلے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts