GHAG

جتنے منہ اتنی باتیں

شمس مومند

بنوں امن پاسون کے نام سے ہزاروں لوگ جمع ہوئے۔ لوگوں کا واحد مطالبہ خطے میں امن کا قیام ہے مگر ہمارے پشتونوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے امن کی شروعات بھی بد امنی سے ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس بات کی باقاعدہ انکوائری اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی ضرورت ہے کہ فائرنگ کی شروعات کس طرح ہوئی۔ کیا فائرنگ سے پہلے واقعی سیکیورٹی اہلکاروں کو گالیاں دی گئی اور پتھراؤکیا گیا؟ جب عوام اور فوجی اہلکار آمنے سامنے آرہے تھے تو اس وقت پولیس کہاں تھی؟ کیا امن جلسہ کے لئے کوئی خاص جگہ مختص تھی یا انکو پورے شہر میں جلسے جلوسوں کی اجازت دی گئی تھی ؟ کیا مظاہرین کے بھیس میں کسی دہشت گرد نے تو فائرنگ کی شروعات نہیں کی؟

یہ اور اس قسم کے دیگر ماہرانہ سوالات کے ٹھوس جوابات ہی اس مسئلے کو ٹھنڈا کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں تین سوالات نہایت اہم ہیں:

  1. بنوں واقعے میں صوبائی حکومت کہاں کھڑی ہے؟ کیا حکومت کو پہلے سے اندازہ تھا کہ اتنی تعداد میں لوگ نکل رہے ہیں؟ اگر اندازہ تھا اور اس میں پاکستان تحریک انصاف بحیثیت پارٹی شریک بھی ہورہی تھی ،اسکے قائدین خطاب بھی کر رہے تھے تو پھر پارٹی نے اپنے کارکنوں کو پر امن اور منظم رکھنے اور حکومت نے ان کی سیکورٹی کے لئے مناسب اقدامات کیوں نہیں کئے؟ وہ کونسے عوامل تھے جس نے سیکیورٹی اہلکاروں کو فائرنگ کرنے پر مجبور کیا ؟یا جس نے پر امن مظاہرین کو تشدد پر اکسایا؟صوبائی حکومت کے ترجمان نے زخمی اور شہدا ءکے لئے امدادی رقم کا اعلان کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا امن مارچ میں شرکت کرنے والے تمام پارٹی قائدین کا اس مارچ کے حوالے سے کوئی ایک مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوا تھا، جس میں اسکے اغراض ومقاصد، نظم ونسق اور طریقہ کار پر غور وخوض کیا گیا ہو؟ کیا ان قائدین کو ہجوم کی نفسیات کا علم نہیں کہ انہیں بہت آسانی کیساتھ اکسایا جاسکتا ہے اور پر امن مظاہرہ دو نعروں سے متشدد بن سکتا ہے؟ اگرانھوں نے اسکی فکر نہیں کی ہے تو اس بد انتظامی اور افراتفری کے ذمہ دار کون ہیں؟

  3. تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا امن پاسون منعقد کرنے والی تمام جماعتوں کا منزل و مقصود ایک ہے؟ اس بات پر تو ان پارٹیوں کے مابین اتفاق نظر آتا ہے کہ ہم مزید فوجی آپریشنز کے خلاف ہیں مگر پی ٹی آئی وفاقی حکومت اور فوج سے امن کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ باقی تمام جماعتیں پی ٹی آئی اور اسکی صوبائی حکومت کو امن وامان برقرار رکھنے کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔

ایک اور تباہ کن صورتحال یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو امن پاسون کی کوریج کرنے اور ان تمام صورتحال پر خبر دینے اور تجزیہ کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کی وجہ سے جتنے منہ اتنی باتیں ۔ہر موبائل رکھنے والا شخص رپورٹر اور تجزیہ کار بن گیا ہے جس کی وجہ سے جھوٹ اور سچ میں تفریق کرنا ناممکن بن گیا ہے۔ جب عالم فاضل اور تجربہ کار صحافیوں کا تجزیہ اور کنفرم خبر دینے پر پابندی ہوگی تو پھر عوام جتنے منہ اتنی باتیں ہی سنیں گے اور اپنی مرضی کی بات پر یقین کر لینگے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔

اس لئے گزارش یہ ہے کہ پختونخوا میں انتہائی حساس حالات اور بد امنی کی موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت فوجی حکام کو بھی حالات کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عوام کی جانب سے امن کے مطالبے کو بد امنی سے روکا نہیں جاسکتا۔ عوام کے مطالبے پر سخت ردعمل کی بجائے ہمدردانہ غور کی ضرورت ہے۔ حکومت اور حکومتی اداروں کی جانب سے عوام کو مورد الزام ٹھرانے کی بجائے عوام اور عسکری حکام کے درمیان اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔

ریاست اگر ماں کی مانند ہے توماں کو اپنے بچوں کیساتھ تمام معاملات پیار محبت اور شفقت کیساتھ نمٹانا ہونگے۔ ان حالات کو پیدا کرنے اور اسکو دوام دینے میں جو بھی ملوث ہے یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ یا تو حالات کو ہر حال میں کنٹرول کیا جائے یا پھر عوام کو اصل صورتحال اور مشکلات سے آگاہ کیا جائے تاکہ ریاست سے ان کے گلے شکوے کم کئے جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts