GHAG

اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر اظہار تشویش

عرفان خان

افغانستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر کی سالانہ رپورٹ یونائیٹڈ نیشن میں جمع کرا دی گئی ہے رپورٹ میں افغانستان میں خواتین، بچیوں اور بچوں سے متعلق انسانی حقوق کی پامالی، امتیازی سلوک، موجودہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے، خواتین کے حقوق، خواتین کو درپیش مسائل، خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی سمیت متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ رپورٹ کے ڈرافٹ تیار کرنے کے عرصے جون 2023 سے مارچ 2024 کے دوران افغان طالبا ن کی جانب سے ملک میں خواتین اور بچیوں کی انسانی حقوق سے متعلق 52 احکامات جاری کیے گئے،رپورٹ کے مطابق جون 2023میں غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں پر تعلیمی پروگرام اور کمیونٹی بیسڈ پروگرام فراہم کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی، خواتین پر مرداینکر کے ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویژن شوز میں شرکت پر پابندی عائد کی گئی، جولائی 2023 میں خواتین کے بیوٹی سیلون کو زبردستی بند کر وادیا گیا۔اگست 2023 میں خواتین پربندے امیر نیشنل پارک میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی، اکتوبر 2023 میں خواتین کو غیر سرکاری تنظیموں میں ڈائریکٹر شپ کا عہدہ رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ فروری 2024 میں ٹیلی ویژن پر خواتین کو حجاب پہننے کے احکامات جاری کئے گئے جس میں چہرے ڈھانپنے اور صرف آنکھیں نظر آنے کا حکم دیا گیا۔

8جنوری 2023 کو خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کی جانب سے 15اگست 2021سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورتحال کے بارے میں معلومات کے لئے درخواست کے جواب میں طالبان نے کہا کہ اس نے شریعت اور افغان معاشرے کی روایات کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کے خلا ف امتیازی سلوک طالبا ن کی پالیسیوں میں شامل ہے جس میں خواتین کی تعلیم تک رسائی کو محدود کرنا بھی شامل ہے، 2021میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے تیزی سے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کردی، بعدازاں اس پابندی کو جامعات اور حال ہی میں نجی تعلیمی مراکز تک پھیلا دیا گیا، نوجوان خواتین کو تعلیم کے حصول کے لئے افغانستان سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

ستمبر2022میں ایک سکول پر حملے میں کم از کم 54افراد کی جانیں گئی جن میں زیادہ تر ہزارہ خواتین اور لڑکیاں تھی اور کم از کم 100افراد زخمی ہوئے،ہزارہ سکولوں، مساجد اور کام کی جگہوں پر حملے ایک وسیع منصوبہ بندی کا حصہ تھے جن میں سے اکثر کی ذمہ داری اسلامک سٹیٹ عراق اور خراسان نے قبول کی تھی،جنس نسل اور مذہب کی بنیادوں پر حملے کرنا اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا اور طالبان کی جانب سے اسے روکنے یا متاثرین کو مدد فراہم کرنے میں ناکامی پر تعلیم کے حصول میں روکاٹوں کو سبب بنا۔

طالبان کی جانب سے چھٹی جماعت سے اوپر کی خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم سے روکنا ایک نقصان دہ اقدام ثابت ہوا ہے، افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے باعث ان کے جبری شادیوں میں اضافے کا خدشے میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے، خاص طور پر جہاں ان کے خاندان والے مالی دباو کا شکار ہوتے ہیں اور مجبوری کے تحت فوری طور پر لڑکی کی شادی طے کر دی جاتی ہے اس کی مرضی کے خلاف، تاہم جبری شادیوں پر طالبان کیجانب سے پابندی لگائی گئی تھی مگر اس کے باوجود ور دراز اور دیہی علاقوں میں جبری شادیو ں میں طالبان اور ان کے ارکان ہی ملو ث پائے گئے ہیں۔

2023میں طالبان نے پرائیوٹ سیکٹر میں خواتین کی ملازمتوں پر کریک ڈوان کرتے ہوئے بیوٹی سیلونز بند کر دیے تھے، جس کے باعث افغان کاروباری خواتین وار گھروں میں کاروبار چلانے والے خواتین بُری طرح متاثر ہوئی،۔

خواتین کے کام کرنے پر عائد پابندی کے باعث ملازمت کرنے والی خواتین کی تعداد میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی، جس کا خاص طور پر خواتین سرکاری ملازمین، ججوں، پراسیکیوٹرز اور صحافیوں پر نمایاں اثر پڑا، انسانی حقوق کی علمبردار خاتون کے مطابق بیس سال قبل انھوں نے اپنی تنظیم کھولی تھی تاہم طالبان کے دور اقتدا ر کے بعد اب مجھے اپنی عمارت میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔

2021سے افغانستان میں خواتین کو مارپیٹ، گرفتاری اور جبرہی گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہاہے، رپورٹ کے مطابق نمائندہ نے حراست میں رکھی گئی خواتین کے حوالے سے تشدد اور جنسی تشدد کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں جن میں مظاہرے کے دوران گرفتار کی گئی خواتین بھی شامل ہیں،

رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کو طویل عرصہ سے افغانستان میں انصاف کے لئے حصول سے محروم رکھا گیا ہے، طالبان کے دور میں تمام ججوں اور پراسیکوٹرز کو ہٹا کر ان کی جگہ ملا جن کو شریعت کی کم سمجھ بوجھ ہے تعینات کیا گیا اور جن کو مشورہ مفتیوں کی جانب سے دیئے جاتے ہیں، جبکہ خواتین وکلاء کے لائسنس بھی معطل کر دیئے گئے، خواتین کے خلاف تشدد کے قانون قانون کو بھی ختم کر دیا گیا، جبکہ خصوصی عدالتیں، استغاثہ کے دفاتر اور فیملی رسپانس یونٹس بھی ختم کر دیئے گئے ہیں،

خواتین اور لڑکیوں کو طالبان اور اس کے حامیوں اور خاندارن کے افراد کے ہاتھوں مارپیٹ اور دیگر قسم کے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس طرح کے روایے میں ناقابل قبول طرز عمل کی سزائیں شامل ہیں جس میں محرم کے حکم نامہ کی خلاف ورزی اور جبری شادی سے انکار جیسے اقدامات شامل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts