GHAG

مدارس کے ایشو پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا موقف

ڈی جی آئی ایس پی آر نے حالیہ پریس کانفرنس کے دوران مدارس کے حوالے سے  جو اعداد و شمار پیش کیے  وہ 2000 کی دہائی کے اوائل سے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا محض ایک اعادہ تھا  جب مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوا اور نیشنل ایکشن پلان 2014 اور نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان  2021 میں اسی پر دوبارہ زور دیا گیا تھا، تاہم مدارس کی رجسٹریشن کہ اس  مسئلے کو سمجھنے کیلئے کچھ حقائق کا جاننا بھی ضروری ہے۔

اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستانی مدارس کو سراہا جاتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اکثر ممالک کی جانب سے پاکستان کے مدارس پربہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور ان پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ دنیا میں بہت کم پاکستانی مدارس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا میں جہاں جہاں بھی مدارس موجود ہیں ان پر وہاں کی حکومتوں کی جانب سے چیک اینڈبیلنس کا ایک نظام موجود ہے۔

اگر مدارس اور ان کی انتظامیہ کو اپنی شفافیت پر اتنا ہی یقین ہے تو وہ اپنے بارے میں اور فنڈنگ کے حوالے سے کیا چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں؟

 یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ حقیقت میں کتنے  مدرسوں  کے پاس اس مقصد کے لیے قانونی طور پر زمین موجود ہے ؟

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ریاست مدارس کو مرکزی دھارے کے تعلیمی نظام کے تحت لانے کی کوشش کر رہی ہے اور مدرسے کے طالب علم کو بہتر مستقبل کے حصول کے لیے مساوی مواقع فراہم کر رہی ہے۔اگر مدارس کا ایک اچھی طرح سے قائم اور نظم و ضبط والا نیٹ ورک ہے تو مدارس کو رجسٹر کرنے اور انہیں مرکزی دھارے میں لانے میں کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

حکومت پاکستان نے محکمہ اوقاف قائم کیا اور مدرسہ کی اعلی ڈگری کو M.A کے مساوی قرار دیا  اور سکینڈری سکول سرٹیفیکیٹ  اور ہائرسکینڈری سکول سرٹیفیکٹ کی سطح پر درس نظامی گروپ متعارف کرایا اس طرح مدارس کے طلباء کو معاشرے میں یکساں مواقع فراہم کیے گئے۔

ڈی جی آر ای کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 49000 مدارس میں سے صرف 25000 مدارس اپنے متعلقہ مسالک بورڈز/وفاق یعنی  مختلف تنظیموں/بورڈز کے ساتھ  رجسٹرڈ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام بورڈز میں مدارس کے طلباء/اساتذہ کا صرف 51.9 فیصد ریکارڈ ہے۔

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اسلام حقائق کو چھپانے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ان کا کھل کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن کا مطلب مدارس کو نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ان کو مرکزی دھارے میں لا کر اور انہیں  مساوی مواقع فراہم کر کے زیادہ اور بہتر تعلیم اور ترقی کے مواقع  فراہم کیے جائیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملکی دفاع پر ہونے والے اخراجات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ،بجٹ میں ان کو پوشیدہ نہیں رکھا جاتا ہے جس کے بعد ان کا کسی بھی ملک کے دفاعی بجٹ کے ساتھ موزانہ کیاجاسکتا ہے۔

مدارس میں عصری تعلیم، تربیت اور دیگر ورکشاپس کیلئے 1834 ملین روپے دیئے گئے- اگر حکومت اس کے بعد اس فنڈ کی تفصیلات طلب کرتی ہے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی تو اسے ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے ۔ مدارس کی رجسٹریشن، مدارس کے طلباء کو عصری تعلیم کی فراہمی، بینک اکاؤنٹس کھولنا، ویزا پالیسی کے ذریعے غیر ملکی طلباء کا پروسیجرل داخلہ اور واحد قومی نصاب متعارف کرانے کا مدارس کے خلاف کوئی پوشیدہ ایجنڈا نہیں ہے۔ لیکن بعض عناصر ان طلباء کو لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

امن مارچ کے نام پر بنوں میں جو کچھ ہوا وہ پالیسی مخالف احتجاج نہیں تھا بلکہ لوٹ مارتھی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز واضح طور پر حقائق کو ظاہر کر رہی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی عوام اپنے محافظوں کو لوٹ کر احتجاج نہیں کرتے۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ اگر بات آئینی حدود میں رہنے کی کی جائے تو ملکی قوانین کی سختی سے پابندی ہی نقطہ آغاز ہوگا – قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کی بار بار تلقین کر رہے ہیں کہ ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تمام مدارس کو رجسٹر کرایا جائے  اور جن امور پراتفاق رائے ہو چکا ہے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts