GHAG

پاک افغان تعلقات، کشیدگی پر ماہرین کی آراء، تنقید اور تجاویز

برمل اور متعدد دیگر علاقوں میں طالبان ہمیشہ سرگرم عمل رہے ہیں، حسن خان

سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایسا کرنے پر مجبور کیوں ہوا؟ عادل شاہ زیب

افغان حکومت پاکستان کی کارروائیوں کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتی، داؤد اعظمی

فضائی حملوں سے جاری مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، طاہر خان

پشاور (غگ رپورٹ) پاکستان اور افغانستان کے سیاسی اور دفاعی ماہرین نے افغانستان کے ضلع برمل میں پاکستان ائیر فورس کے حملوں کو دونوں ممالک کے درمیان دہشت گرد گروپوں کی افغان عبوری حکومت کی جانب سے سرپرستی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت عالمی سطح پر تسلیم نہیں کی گئی ہے اس لیے نہ تو ان حملوں پر کوئی بین الاقوامی ردعمل یا مذمت کا امکان ہے اور نا ہی افغان حکومت پاکستان جیسے طاقتور فوجی طاقت پر کسی بڑی جوابی کارروائی کی اہلیت رکھتی ہے۔

حسن خان، سینئر صحافی

سینئر صحافی حسن خان نے اس ضمن میں بتایا کہ کہ پاکستان کی سرحد سے متصل تین چار صوبوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروپ لمبے عرصے سے فعال اور سرگرم رہے ہیں اور ان کی کھلے عام سرگرمیوں کو افغان طالبان اور ان کی حکومت کی باقاعدہ سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان کے بقول حالیہ فضائی حملوں کو 23دسمبر کو جنوبی وزیرستان میں ہونے والے اس حملے کا جواب سمجھا جاتا ہے جس میں فورسز کے 16 جوان شہید ہوگئے تھے اور اس سے اگلے روز پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر خود وزیرستان گئے تھے۔ حسن خان کے مطابق برمل ایئر سٹرایکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی افغان عبوری حکومت کو باقاعدہ اطلاع دی گئی تھی۔

عادل شاہ زیب، اینکرپرسن

نامور اینکر پرسن عادل شاہ زیب نے اپنے تبصرے میں کہا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم نہیں ہورہی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پاکستان ایئر فورس نے گزشتہ روز سرحد پار کرکے تین چار مقامات کو نشانہ بنایا جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کے ٹھکانے تھے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس میں اہم کمانڈروں سمیت درجنوں افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

داؤد اعظمی، سینئر افغان صحافی

سینئر افغان صحافی داؤد اعظمی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ افغانستان کی عبوری حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی نے ان حملوں کو عالمی قوانین کے علاوہ جارحیت قرار دیا ہے اور بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے تاہم افغان عبوری حکومت پاکستان کی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کے مقابلے میں اس طرح کے کسی جواب کی اہلیت نہیں رکھتی اور نا ہی عالمی فورمز کی جانب سے اس کے حق میں کوئی ردعمل آسکتا ہے کیونکہ افغان عبوری حکومت ابھی تک عالمی سطح پر تسلیم نہیں کی گئی ہے ۔ ان کے بقول پاکستان کا موقف یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی فورسز پر رواں سال حملوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ داؤد اعظمی کے مطابق اس سے قبل بھی پاکستان افغانستان کے اندر متعدد بار اس نوعیت کی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔

طاہر خان، سینئر صحافی

اسلام آباد میں مقیم سینئر تجزیہ کار طاہر خان نے کہا ہے کہ مذکورہ حملوں اور جاری کشیدگی سے نہ صرف یہ کہ دونوں ممالک کی بداعتمادی میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوا ہے بلکہ اس مذاکراتی عمل کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جو کہ نمایندہ خصوصی محمد صادق خان کی قیادت میں شروع ہوا ہے۔ ان کے بقول صادق خان اور ان کی ٹیم نے گزشتہ دنوں کابل میں نہ صرف وفود کی سطح پر ملاقاتیں کیں بلکہ انہوں نے دو اہم وزرا یعنی وزیر داخلہ سراج الحق حقانی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس لیے ان حملوں کی ٹائمنگ عجیب سی لگ رہی ہے۔

دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ کے جاری کردہ بیانات میں وہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حملوں میں وزیرستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو نشانہ بنایا گیا ہے تاہم پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے علاوہ مقامی لوگ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ کالعدم گروپوں کے ٹھکانوں ہی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp