GHAG

جنرل (ر) فیض حمید کا متوقع مستقبل اور متوقع منظرنامہ

چارج شیٹ بہت سخت اور واضح ہے، سزا ہوکر رہے گی، ماہرین

9مئی کے واقعات کی مزید تفتیش الگ ہوگی جس سے پی ٹی آئی خوفزدہ ہے، تجزیہ کار

عمران خان نے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کرکے وابستگی ظاہر کی تھی، ماہرین

آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 بہت سخت ہے جس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے، ماہرین قانون

پشاور (غگ رپورٹ) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق کور کمانڈر پشاور جنرل (ر) فیض حمید کو پاک فوج کے آرمی ایکٹ کے تحت چارج شیٹ کردیا گیا ہے جس نے جہاں سیاسی اور حکومتی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے وہاں مزاحمت پر گامزن پی ٹی آئی کے مستقبل کو بھی سوالیہ نشان بنادیا ہے کیونکہ جنرل (ر) فیض حمید پر جن الزامات کے تحت کارروائی متوقع ہے ان میں مبینہ طور پر 9 مئی کے واقعات اور عوام کو ریاست کے خلاف مشتعل کرنے کا معاملہ بھی شامل ہے جس سے متعلق پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ پہلے دن سے زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور پی ٹی آئی اس معاملے کا ایک بنیادی فریق ہے اور پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے علاوہ 9 مئی کی ریاست مخالف کارروائیوں میں بھی ان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی واقعتاً جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے حساس معاملے سے لاتعلق ہوکر اسے بقول بیرسٹر گوہر فوج کا اندرونی معاملہ سمجھتی تو عمران خان آن دی ریکارڈ نہ تو موصوف کو اثاثہ قرار دیتے نا ہی ان کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد ان کی  اوپن ٹرائل کا وہ مطالبہ کرتے جس پر ملٹری اسٹبلشمنٹ نے 22 اگست کو شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ  “اگر ایسا ہوتا ہے تو یوں ہی سہی” ۔

منگل کے روز جب آئی ایس پی آر کی ایک جامع پریس ریلیز سامنے آئی تو ملکی سیاست اور عالمی میڈیا میں ہلچل سی مچ گئی کیونکہ پاکستان کے اکثر روایتی تجزیہ کار اور سیاست دان اس ضمن میں کافی عرصے سے یہ کہتے رہے کہ پاکستان کی فوج اتنے اہم کردار اور سابق آئی ایس آئی چیف پر عملاً کوئی سخت “ہاتھ” نہیں ڈالے گی اور یہ کہ ان کی گرفتاری پی ٹی آئی پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے تاہم چارج شیٹ کے علاوہ بعض دیگر “معاملات” کو ڈالنے کے واضح موقف نے ایسے تمام تجزیے غلط ثابت کردیے اور قانونی ماہرین گھنٹوں کے اندر  کہنا شروع ہوگئے کہ مذکورہ چارج شیٹ کے بعد نہ صرف یہ کہ ٹرائل کا جلد آغاز ہوگا اور فلاں فلاں سزا ہوگی بلکہ یہ بھی کہا جانے لگا کہ تحقیقات کا دائرہ مزید بڑھانے کے واضح اشاروں سے پی ٹی آئی سمیت بہت سے اور فریقین بھی اس پراسیس کی گرفت میں آنے والے ہیں۔

سال 2012 کے بعد پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے جنرل (ر) فیض حمید کو خلاف توقع 12 اگست 2024 کی شام کو آرمی ایکٹ کے تحت اسلام آباد سے حراست میں لیا گیا تھا یوں ان کی گرفتاری کو تقریباً 4 مہینے مکمل ہوئے ہیں۔ فوج نے باقاعدہ ان پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات جاری کردیں اور منگل کے روز چارج شیٹ کی تفصیلات بھی فراہم کیں۔

یہ اس جانب واضح پیغام اور عملی اقدام ثابت ہوا کہ اختیارات کے غلط استعمال، ڈسپلن کی خلاف ورزی اور ایک متعین کردہ مدت سے قبل سیاسی ہمدردی یا دیگر ایسی سرگرمیوں کی خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان آرمی اتنے اہم عہدوں پر فائز رہنے والے شخص پر بھی ہاتھ ڈال سکتی ہے۔

ماہر قانون نورعالم خان ایڈوکیٹ نے اس ضمن میں رابطے پر بتایا کہ چارج شیٹ کا مطلب یہ مذکورہ شخص پر فرد جرم عائد کرنا ہوتا ہے اور جس نوعیت کی تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ فیض حمید کا کسی بڑی سزا سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق طریقہ کار کے مطابق ملزم کو  قانونی طور پر اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور یہ بات آئی ایس پی آر کے دو تین متعلقہ بیانات میں بھی کہی گئی ہے تاہم کورٹ مارشل کا طریقہ کار عام عدالتوں کے طریقہ کار سے بہت مختلف ہوتا ہے اور آرمی ایکٹ کی شرائط ، ضوابط بہت واضح ہیں اس لیے متوقع سزاؤں کو مروجہ سول عدالتوں کے فریم ورک کے تناظر میں دیکھنے والے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو۔

دوسری جانب مختلف سیاسی رہنماؤں نے مذکورہ چارج شیٹ پر مختلف الخیال آراء کا اظہار کرتے ہوئے اسے پی ٹی آئی کے مستقبل کے لیے ایک نیا آزمائش بلکہ سانحہ قرار دیا ہے اور اکثر کا خیال ہے کہ اس کیس سے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے خلاف ملٹری ٹرائل کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp