GHAG

اندرونی سہولت کاری

روخان یوسفزئی

اس میں تو اب کوئی دو رائے نہیں کہ ملک عزیز میں جاری دہشت گردی کسی ایک علاقہ،صوبہ یا قبیلے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ جب تک ہم اس سنگین مسئلے کو دل و دماغ اور خلوص نیت سے اپنا قومی اجتماعی مسئلہ تسلیم نہیں کریں گے تب تک اس پر قابو پانا یا اسے جڑ سے اکھاڑنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔دیکھا جائے تو آج بھی اتنی زیادہ تباہی اور بربادی کے باوجود بعض انتہاپسند عناصر،شدت پسند جماعتیں اس مسئلے کو صرف سیکورٹی فورسز اور ریاستی اداروں کا مسئلہ سمجھتے ہوئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے اور یہ عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردی ایک ایسی آگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس کے شعلوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

دنیا کی کسی بھی قوم کو اگر کوئی قومی اور اجتماعی مسئلہ درپیش آجائے تو اس سے نمٹنے کے لیے پھر پوری قوم ایک پیج پر ہوتی ہے۔اپنے سیاسی،نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی طور پر اس مشکل کا متفقہ طور پر حل ڈھونڈتی ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس اجتماعی و قومی سوچ اور اتفاق رائے کا شدید فقدان نظر آرہا ہے۔جس کی وجہ سے ہماری سیاسی،انتظامی اور ریاستی حکمت عملی میں کچھ تضادات اور خاص طور پر شدت پسندی اور دہشت گردی میں اندرونی سہولت کاری کی وجہ سے پاکستان اس سنگین مسئلے سے جامع انداز میں نمٹ نہیں پارہا ہے۔کیونکہ موجود جان لیوا امراض یعنی مذہبی انتہاپسندی،فرقہ واریت،شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے ہم آج بھی کئی دیگر معاملات میں الجھے لٹکے ہوئے نظر آرہے ہیں۔جسے چونکہ چنانچہ اور اگر مگر بھی کہہ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری حکمت عملیوں میں شک،گماں اور ابہام کا پہلو غالب ہوتا جارہا ہے۔پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ” د گنڑو امسا د یو گیڈے“ یعنی بہت سوں کی لاٹھیاں ایک کی گھٹری“۔مگر ہمارے ہاں اس پر عمل دخل مفقود ہے۔کیا یہ ہم سب کو نظر نہیں آتا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔کیا ہم اس بات سے واقف نہیں کہ دہشت گردوں کی حکمت عملی اب کثیرالجہتی بنتی جارہی ہے اور ان کا نیٹورک تہہ در تہہ پھیلتا جارہا ہے۔جس کے باعث یہ دہشت گرد براہ راست اپنی کارروائیوں کو انجام دیتے ہیں۔ان کے ٹرینگ کیمپ ان جگہوں پر قائم ہیں جہاں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی رٹ نہیں ہے۔یا وہ پاکستان کی حدود سے باہر ہیں،خصوصاً افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے ہیں ان پر افغان حکومت کی بھی کوئی رٹ دکھائی نہیں ہے، اور نہ ہی موجودہ طالبان حکومت اسے کوئی اہم سنجیدہ مسئلہ سمجھتی ہے کیونکہ پشتو میں کہا جاتا ہے کہ “پردے غم د واورے سوڑ وی” یعنی پرایا غم برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے طالبان حکومت ان علاقوں پر اپنی رٹ قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتی ہے۔دہشت گردوں کے نیٹورک کے دیگر سیکشنز کے علاوہ جو سب سے زیادہ خطرناک اور قابل توجہ حصہ ہے وہ ہے اندر اور باہر یعنی بیرون ملک اور اندرون ملک سے مالی سہولت کاری پر مشتمل ایک مربوط سلسلہ ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے مالی مفادات دہشت گردوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یعنی ان کا بے خیری میں خیر ہوتا ہے۔ یہ سمگلنگ، ڈرگز، اغواء برائے تاوان اور دیگر وائٹ کالر کرائمز کرنے والوں پر مشتمل گروہ ہیں۔کالے دھن کا مالک یہ گروہ اپنے مفادات اور اپنی گردن بچانے کے لیے پاکستان کے نطام کو بھی کرپٹ کرنے کے ذمہ دار ہے۔جبکہ ملک کے سیاسی کلچر کو بھی داغ دار اور الودہ کررہا ہے۔اس نیٹ ورک کا ایک اہم حصہ ان سہولت کاروں پر مشتمل ہے جو دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں انہیں اشیا خوردنوش، اسلحہ یا خودکش جیکٹس وغیرہ چھپانے کے لیے جگہ کی سہولت دیتے ہیں اور پھر ہدف تک پہنچانے کاکام بھی کرتے ہیں۔یہ لوگ سیکورٹی فورسز کو بھی نشانہ بناتے ہیں اس کا مقصد سیکورٹی فورسز کا مورال ڈاون کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ دہشت گرد سیکورٹی فورسز سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہیں۔اس نیٹ ورک کا ایک حصہ ایسے گروہ پر مشتمل ہے جس کا کام تحریر اور تقاریر کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرنا ان کے کاز کو درست ثابت کرنا ریاست اور حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنا۔دہشت گردوں کے نظریات کو درست قرار دینا جیسے کام شامل ہیں۔ یہ تمام حصے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں لہذا جاری جنگی حکمت عملی میں ہمیں سب سے زیادہ اندرونی سہولت کاری پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔کیونکہ جس طرح درخت نے کلہاڑے سے کہا تھا کہ اگر اپکا دستہ میرے وجود کا حصہ نہ ہوتا تو آپ مجھ پر کبھی بھی وار نہیں کرسکتا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp