تحریر: روخان یوسفزئی
آج کل پاک افغان تعلقات میں جو کشیدگی یا بداعتمادی پیدا ہوئی ہے اور دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں تو دیکھنا یہ چاہیئے کہ ان میں اصل قصوروار کون ہے؟ کیا پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قائم افغان طالبان کی عبوری حکومت کے بارے میں وہاں مقیم دہشت گردوں کے بارے میں جو خدشات پائے جاتے ہیں کیا پاکستان ان خدشات اور الزامات کے بارے میں حق بجانب نہیں ہے؟ کیا گزشتہ دنوں افغان عبوری حکومت کے ترجمان نے خود اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ یہاں مقیم دہشت گرد ہمارے مہمان ہیں اور مہمان نوازی ہماری روایت ہے۔ لہٰذا اب تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے افغان طالبان کی عبوری حکومت کی مدد اور سہولت کاری کارفرما ہے۔
دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان کی عبوری حکومت اس بات کی پابند قرار ہے اور یہ وعدہ اور معاہدہ کرچکی ہے کہ وہ اس بات پر عمل درآمد کرے گی کہ وہ اپنی سرزمین سے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کرے گی۔افغانستان کو دہشت گرد گروپوں سے مکمل پاک کیا جائے گا۔افغانستان میں موجود اسلحہ دہشت گرد گرہوں کے پاس جانے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن ان میں سے کسی ایک شرط یا اس معاہدے کی کسی شق پر تاحال افغان عبوری حکومت عمل درآمد کرنے میں مکمل غفلت اور طوطا چشمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہورہی ہیں، ان میں دہشت گرد ہر قسم جدید ترین ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل آلات سے لیس نظر آرہے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت جب تک اپنی سرزمین پر اپنی رٹ قائم نہیں کرتی یا دوحہ معاہدہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہی ہو، اس وقت تک اردگرد یعنی ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملے اس بات کا غماز ہیں کہ پاکستان دشمن اور مخالف عناصر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف باقاعدہ ایک نفسیاتی جنگ لڑرہے ہیں۔ اندرون ملک آج بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو دہشت گردوں کی سہولت کاری کررہے ہیں، انہیں نظریاتی تعلیم دینے میں ہر قسم مدد فراہم کررہے ہیں۔
سچ کہا جائے توہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی رہا کہ ہم نے اس دور عالمگیریت میں بھی نوجوان نسل کی زندگی آسان بنانے کے لیے ایک ایسا نصاب تعلیم مرتب نہیں کیا جس سے ان کی صحیح معنوں میں ذہنی تربیت اور نظریاتی آبیاری ہوسکے۔ متاسفانہ ہم اب بھی اپنی نئی نسل کو اپنے تاریخی حقائق سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چھوٹے سے پودے کی اگر صحیح طریقے سے بروقت دیکھ بھال اور آبیاری کی جائے تو اس کی نشونما بھی اچھی طرح ہوتی ہے اور اس کی جڑیں بھی مضبوط اور پھیلتی جاتی جاتی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبے ”اڑان پاکستان“کا جو اعلان کیا ہے نہایت خوش آئند ہے تاہم اسی منصوبے کے تحت موجودہ صورت حال کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ملک کے پس ماندہ علاقوں میں سڑکوں،تعلیمی اداروں،ہسپتالوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر نہ تو ان لوگوں اور ان نوجوان نسل کو مایوسی سے باہر نکالا جاسکتا ہے، اور نہ ہی بیروزگاری،جہالت،انتہاپسندی،شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی جب بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہوگی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، سڑکیں اور مواصلات کا نظام ہوگا تو سکول،کالج،فیکٹریاں بنیں اور چلیں گی اور ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے شہروں کا سفر آسان اور ممکن ہوگا۔تو ان کو پتہ چلے گا کہ ان کے علاقوں کے علاوہ بھی دنیا موجود ہے۔جو لوگ اندرونی اور بیرونی وجوہات کی بنا پر ہمارے ملک اور معاشرے کے لیے ناسور بن چکے ہیں ان پر”فوجی آپریشن“ کا نشتر چلانا ضروری ہے۔
اس وقت امن نصاب کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر دہشت گردی کے نظریات کو ختم کیا جاسکے کیونکہ دہشت گردی کی اس خطرناک قسم کا خاتمہ صرف اسلحے کے ذریعے نہیں بلکہ علمی وفکری اور نظریاتی حکمت عملی اور ذہنوں کی تبدیلی سے ممکن ہوسکتا ہے۔
(3جنوری 2025)