17-12-2024
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سانحہ اے پی ایس کی برسی سے بلکل لاتعلق رہی
وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون کے بغیر باقی مذمتی بیانات سے بھی گریزاں
پی ٹی آئی نے برسی کی بجائے 15 دسمبر کو گولی کیوں چلائی کا ایونٹ منعقد کیا تھا، عرفان خان
واقعے کے وقت صوبے میں پی ٹی آئی ہی کی حکومت تھی، ہدایت اللہ گل
حکمرانوں سے کرم کا مسئلہ حل نہیں ہوتا صوبے میں امن کا قیام تو دور کی بات ہے، خالد ایوب
پشاور (غگ رپورٹ)) خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت سرکاری طور پر 16 دسمبر کو ہونے والے اے پی ایس حملے کے 10 سال گزرنے پر بالکل لاتعلق اور خاموش رہی۔ نہ تو شہداء کی یاد میں کوئی ریفرنس یا سیمینار کا انعقاد کیا گیا نہ ہی کسی وزیر مشیر نے اے پی ایس کا دورہ کیا اور نہ ہی کسی رسمی سوگ کا اعلان کیا گیا۔ اس رویے پر عوامی حلقوں کے علاوہ شہداء کے لواحقین نے بھی شدید تنقید کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ 15 دسمبر کو پشاور میں صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی نے 26 نومبر کی کال سے متعلق ایک اجتماع کا انعقاد کیا اور خصوصی دعوت پر انٹرنیشنل میڈیا کو وزیراعلیٰ ہاوس میں بلاکر ریاست کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی مگر اس سے اگلے روز پشاور ہی کے ایک سکول پر ہونے والے خوفناک حملے کی یاد میں صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی قطعاً لاتعلق رہی اور کسی علامتی ریفرنس یا ایونٹ کا اہتمام بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔
سوشل میڈیا پر انتہائی متحرک پی ٹی آئی اور اس کی حکومت نے محض دو تین بیانات ہی پوسٹ کیے۔ آفیشل ہینڈلرز پر ایک مذمتی بیان وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے سامنے آیا جبکہ دوسرا بیان وزیر قانون کی طرف سے جاری کیا گیا۔ یہاں تک کہ ہر ایشو پر بیان جاری کرنے والے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی سانحہ اے پی ایس سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے باخبر صحافی عرفان خان نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی نیت ٹھیک ہوتی تو 15 دسمبر کے حیات آباد والے ایونٹ کو اے پی ایس کے سانحہ کے ساتھ جوڑ کر 16 دسمبر کے دن رکھا جاتا یوں اپنے یا بحق ہونے والے کارکنوں کے علاوہ شہدائے اے پی ایس کے ساتھ بھی یکجہتی کا اظہار کیا جاتا۔ ان کے بقول پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت نے صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ 16 دسمبر کو ہر سال قومی دن کے طور پر منایا جائے مگر اسی حکومت نے اس روز کی مناسبت سے خود کچھ نہیں کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کی سیاسی مخالفت میں یہ پارٹی اے پی ایس کے معصوم شہداء کو یاد کرنے کی ضرورت بھی محسوس کرتے۔
سینئر صحافی اور دانشور ہدایت اللہ گل نے اس رویہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوسروں کے برعکس پی ٹی آئی پر اس حوالے سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ سال 2014 کے دوران جب آرمی پبلک اسکول پر مذکورہ خوفناک حملہ کیا گیا تو اس وقت بھی صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لاتعلقی پر مبنی رویہ نے شہداء کے لواحقین اور ان جوانوں کو بہت منفی پیغام دیا ہے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر امن کے قیام کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے پی ٹی آئی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر رہ کر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کررہے ہوتے تو آج پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔
پختونخوا قومی جرگہ کے چیئرمین خالد ایوب نے صورتحال کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے پی ایس سمیت اس ملک اور صوبے نے بے شمار زخم برداشت کیے ہیں مگر اب بھی ہمارے قائدین اور متعلقہ اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس حکومت سے کرم کے حالات بہتر نہیں ہوپارہے اور ایک حساس ضلع کے امن کو ممکن کی عملی کوششیں نہیں ہوپا رہی ہیں اس حکومت سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے خیبرپختونخوا کو بدامنی اور بیڈ گورننس کا سامنا ہے مگر حکمرانوں کو محاذ آرائیوں ، کرپشن اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے فرصت نہیں ہے۔