تحریر: اے وسیم خٹک
پاکستان اور افغانستان کی حالیہ کشیدگی اور دہشتگردی کے خطرات نے خطے میں سلامتی کی صورتحال پیدا کردی ہے پاکستان نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، جن کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں، جہاں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے ممکنہ دہشتگرد حملوں کے خدشات ہی اور ان کی جانب سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہر سرکاری ملازم کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے حتی کہ وہ مولویوں اور تبلیغی حکام کو بھی اُن کا ساتھی قرار دے رہے ہیں، جس کے بعد حکومت نے حساس مقامات، مساجد، اور عوامی مقامات پر سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع فوری طور پر پولیس یا مقامی حکام کو دیں۔ حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ صرف عوام کے تعاون سے ممکن ہے اور قومی اتحاد ہی ان خطرات کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے افغان صوبے پکتیکا کے ضلع برمل میں دہشتگردوں کے خلاف فضائی کارروائی کی، جس میں 71 سے زائد دہشتگرد ہلاک ہوئے، جن میں اہم کمانڈرز بھی شامل ہیں۔ کارروائی میں خودکش جیکٹ بنانے کی فیکٹری سمیت 4 اہم مراکز تباہ کر دیے گئے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ مقامی آبادی کو محفوظ رکھا گیا، تاہم افغان حکومت نے 46 سویلین ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کارروائی پر سخت احتجاج کیا ہے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کی کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حملے میں وزیرستان کے مہاجرین کو نشانہ بنایا گیا ہے اور پاکستان کو ماضی کی مزاحمتوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی پاکستانی حملے کی مذمت کی اور جانی نقصان کو ناقابل قبول قرار دیا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ کارروائیوں کا مقصد دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہے، جو ملک کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تمام فریقین کو تعاون کرنا ہوگا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں ملکی سالمیت کے لیے ضروری ہیں، لیکن ان کے اثرات سرحد پار تعلقات پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
یہ صورتحال خطے کے لیے ایک پیچیدہ چیلنج ہے، جہاں دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ عوامی تعاون، قومی یکجہتی، اور مؤثر سفارتکاری سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔