تحریر: اے وسیم خٹک
پاکستان کی سیاست میں حالیہ احتجاج نے خیبرپختونخوا حکومت کی حکمت عملی اور ترجیحات پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب صوبے کے عوام بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، دہشت گردی ،حالیہ پاڑہ چنار کے حالات، جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات سمیت معاشی مسائل اور دیگر چیلنجز سے نبردآزما ہیں جبکہ موجودہ حکومت نے اپنی توانائیاں اور وسائل سیاسی مارچ پر صرف کیے، اور اب تحریک انصاف کی “فائنل کال”بھی اس کا حصہ ہے
خیبرپختونخوا، جو پہلے ہی صحت، تعلیم، اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، اب ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہے جس نے اپنے وسائل عوام کی فلاح کے بجائے ایک سیاسی احتجاج پر لگانے پر فوقیت دی۔ صوبے کے اسپتال بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں، سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار گر رہا ہے، اور بے روزگاری نے نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
تحریک انصاف کی “فائنل کال” کو ایک بڑا سیاسی اقدام کہا جا رہا تھا، لیکن اس احتجاج میں شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔ اسلام آباد میں محض خیبرپختونخوا سے لائے گئے چند ہزار افراد کی موجودگی اور دیگر صوبوں سے عوام کی عدم شرکت نے واضح کر دیا کہ عوام نے انتشار، تقسیم، اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف کی قیادت بھی اس مارچ میں نظر نہیں آئی، جو خود اس احتجاج کی ناکامی کا مظہر تھا۔
حکومت خیبرپختونخوا نے اس مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے تمام وسائل جھونک دیے۔ سرکاری ملازمین کو سول کپڑوں میں احتجاج میں شامل کیا گیا، عوام کو پیسے دے کر لانے کی کوشش کی گئی اور صوبے کے وسائل کو اس احتجاج پر بے دریغ خرچ کیا گیا۔ عوام کے لیے یہ سوال اہم ہے کہ حکومت اپنی توانائیاں عوام کی خدمت کے بجائے ایک سیاسی رہنما کی رہائی پر کیوں خرچ کر رہی ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود تحریک انصاف نے اپنا احتجاج جاری رکھا، جس نے عدلیہ کے وقار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ عدالت اس معاملے میں توہین عدالت کی کارروائی کب شروع کرے گی اور کس طرح ان رہنماؤں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عمران خان کی اہلیہ، جو بارہا اپنے گھریلو خاتون ہونے کا دعویٰ کرتی رہیں، اس احتجاج کو براہ راست لیڈ کر رہی ہیں۔ ان کے سیاسی بیانات اور قیادت کا یہ کردار عوام کے لیے سوالات پیدا کر رہا ہے۔ جب تحریک انصاف کے شرپسندوں کو پکڑا جائے گا، تو کیا یہ دوبارہ گھریلو خاتون کا دعویٰ کریں گی؟
ایک اور پہلو جس پر عوام میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، وہ تحریک انصاف کی احتجاج کی ٹائمنگ ہے۔ اکثر اوقات یہ احتجاج تب شروع ہوتے ہیں جب پاکستان میں کوئی غیر ملکی وفد موجود ہوتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا گولڈ سمتھ پلان کا حصہ؟ عوام اب ان سازشی نظریات کو زیادہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی یہ “فائنل کال” اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ عمران خان کی رہائی، جسے اس احتجاج کا بنیادی مقصد قرار دیا جا رہا تھا، حاصل نہیں ہو سکی۔ اگر وہ جیل سے باہر نہیں آتے، تو یہ احتجاج محض ایک ناکام مظاہرہ تصور کیا جائے گا۔ اسلام آباد کو بند کرنے کی کوشش کو اگر کامیابی کہا جائے تو یہ ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ جیت تب ہوتی جب تحریک انصاف اپنے اہداف حاصل کرتی۔
اس تمام صورتحال کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ عوام نے واضح کر دیا ہے کہ وہ انتشار کی سیاست کو مسترد کر چکے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ عوامی مسائل کے حل کی طرف مرکوز کرے اور سیاست سے بالاتر ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔
یہ احتجاج نہ صرف تحریک انصاف کی ناکامی کا مظہر تھا بلکہ خیبرپختونخوا حکومت کی ترجیحات پر بھی سوالیہ نشان لگا گیا۔ عوام کی فلاح و بہبود کو نظرانداز کر کے سیاسی ایجنڈے پر عملدرآمد ایک ناکام حکمت عملی ثابت ہوئی۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت اپنی سمت درست کرے اور عوامی مسائل کے حل کو ترجیح دے۔