GHAG

پختون قوم اور برداشت کا عالمی دن

اے وسیم خٹک

پوری دنیا میں 16نومبر ہر سال برداشت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد انسانیت کو یہ یاد دلانا ہے کہ صبر، تحمل، اور رواداری کسی بھی معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط بناتے ہیں۔ پختون قوم، جسے سالہا سال سے جنگ اور مشکلات کا سامنا ہے، اس بات کی زندہ مثال ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی کیسے صبر اور ہمت سے اپنے علاقے، اپنی قوم، اور اپنی زندگی کو سنوارا جاسکتا ہے۔

پختون علاقوں میں 2000ءکے بعد سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ نے ایسی صورتحال پیدا کر دی جہاں ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ ان علاقوں میں طالبان کے خلاف بے شمار فوجی آپریشنز کیے گئے جن کی وجہ سے ہزاروں گھرانے بے گھر ہو گئے، کئی دیہات اور قصبے اجڑ گئے، سینکڑوں خاندان اپنے عزیزوں سے محروم ہو گئے۔ ایک مثال شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ کی ہے، جہاں آپریشن کے دوران تقریباً ہر دوسرا گھرانہ متاثر ہوا۔ جن لوگوں نے اس جنگ میں اپنے پیاروں کو کھویا، وہ آج بھی اسی عزم اور برداشت کے ساتھ وہاں آباد ہیں۔

ایک اور مثال سوات کی ہے، جو کبھی سیاحوں کی جنت کہلاتا تھا، مگر جب وہاں شدت پسندی نے سر اٹھایا تو اس علاقے کے لوگوں کو ایسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ وہاں کی عوام نے آپریشن راہ راست جیسے شدید حالات کا سامنا کیا، اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، لیکن کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ حالات بہتر ہونے کے بعد وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹے اور زندگی کو پھر سے بسانا شروع کیا۔ وہ آج بھی انہی پہاڑوں کے دامن میں آباد ہیں جہاں ایک وقت میں شدت پسندی اور خوف کا سایہ تھا۔ ان کی ہمت نے ایک بار پھر سوات کو سیاحت کے لیے محفوظ بنا دیا ہے، اور آج وہاں امن اور سکون واپس لوٹ چکا ہے۔

پختون قوم کے بچوں نے بھی ان حالات میں برداشت اور قربانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سوات میں ملالہ یوسفزئی کی مثال سامنے آتی ہے، جسے شدت پسندوں کی مخالفت کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ اس نے تمام تر خوف اور دھمکیوں کے باوجود اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور ایک ایسے مقصد کے لیے آواز بلند کی جس سے دنیا بھر میں پختون قوم کے صبر، برداشت، اور تعلیم کے عزم کی گونج سنائی دی۔اور اس کے ساتھ دوسری بچیوں نے بھی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا بلکہ جاری رکھتے ہوئے اعلی مقام حآصل کئے۔

آرمی پبلک سکول کے واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے گھر میں سورج نہیں نکل رہا مگر وہ والدین برداشت کر رہے ہیں کہ کبھی سورج اُن کے انگن میں اتر جائے وہ بچے جو زخمی ہوئے تھے انہوں نے بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

 باجوڑ کے ایک اسکول کے بچے کی ہے جس نے اپنے سکول پر حملے کے بعد بھی تعلیم کو ترک نہیں کیا اور مشکل حالات کے باوجود اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ یہ بچے اپنی زندگیوں میں آئی مشکلات سے بھاگے نہیں بلکہ ان کا سامنا کیا اور اپنے اندر صبر اور استقامت پیدا کی۔

یہ وہ مثالیں ہیں جو پختون قوم کی قربانیوں اور برداشت کی عکاس ہیں۔ ان کی ہمت، عزم اور حوصلہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی ناامیدی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ آج بھی جب ان علاقوں میں امن و امان کی بات کی جاتی ہے، تو یہی لوگ سب سے پہلے امن کی بحالی اور تعمیرِ نو میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

برداشت کا عالمی دن اور پختون قوم کی مثالوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ  زندگی میں کتنا ہی مشکل وقت کیوں نہ آئے، پشتون اپنے اندر برداشت اور ہمت کا جذبہ برقرار رکھتے ہیں اور مشکلات کو اپنے اوپر حاوی کرنے کی بجائے ان کا مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ یہی  انسان کی اصل طاقت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp