GHAG

پاکستانی ترسیلات زر اور عمران خان کی سول نافرمانی کی اپیل

تحریر: فہمیدہ یوسفی

پاکستان کی معیشت میں ترسیلات زر کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر ملکی معیشت کی استحکام کا بہت بڑا دارومدار ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر نہ صرف گھریلو اخراجات کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ کرتی ہیں، جو کہ ملکی اقتصادی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ یہ ترسیلات زر معاشی بحرانوں کے دوران معیشت کے لیے ایک مضبوط سہارا بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سیاسی اور معاشی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں، اور ان تبدیلیوں کا ترسیلات زر پر کیا اثر پڑا ہے؟ اور کیا عمران خان کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات زر کم کرنے کی اپیل کا کوئی اثر پڑے گا؟ ان سوالات کا جواب ذرا تفصیل  سے دیکھتے ہیں

ترسیلات زر کی اہمیت

ترسیلات زر کا اہمیت پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بنیادی عنصر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، پاکستان اور سری لنکا ان ممالک میں شامل ہیں جن کی معیشتوں کا بڑا حصہ ترسیلات زر پر منحصر ہے۔ پاکستان میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ سے زائد ہے، اور ان میں سے اکثر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔ یہی وہ ممالک ہیں جہاں سے پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھی پاکستانی کمیونٹیز موجود ہیں جو مالی طور پر اپنے وطن کی معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

یہ ترسیلات زر ملکی معیشت کے لیے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کے ایک متوازن اور مستحکم حصے کے طور پر کام کرتی ہیں، خاص طور پر ان حالات میں جب ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہو۔

عمران خان کے سیاسی بیانات اور ترسیلات زر

پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی حالات میں مسلسل اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور ان کی گرفتاری کے بعد سے سیاسی حالات میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے، اور اس کے اثرات ترسیلات زر پر بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کی مدت میں ملک کی معیشت مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی تھی، لیکن باوجود اس کے کہ سیاسی عدم استحکام تھا، ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی اور اسی سال عمران خان کو گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس سیاسی بد نظمی کے باوجود، پاکستان میں ترسیلات زر میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ یہ ایک ایسا پہلو تھا جس نے ماہرین معیشت کو حیران کن بنایا کیونکہ عام طور پر سیاسی عدم استحکام کے دوران معاشی بحران آنا متوقع ہوتا ہے، لیکن اس وقت کے دوران ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہوا۔

ترسیلات زر میں کمی کی اپیل

حال ہی میں عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات زر کم کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات زر کی مقدار کو کم کرنے کی درخواست کریں گے۔ اس بیان نے نہ صرف پاکستانی عوام کو بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی چونکا دیا۔

کیا عمران خان کی یہ اپیل اوورسیز پاکستانیوں پر اثر انداز ہوگی؟ اس سوال کا جواب مختلف زاویوں سے دیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے وطن کی سیاسی صورتحال سے بے پرواہ ہو کر اپنے خاندانوں کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لیے ان کی ترسیلات زر میں کمی کا امکان کم ہے۔ دوسری طرف، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی سیاسی صورتحال اتنی پیچیدہ اور متنازعہ ہو جائے کہ بیرونِ ملک پاکستانی اپنی مالی ذمہ داریوں میں کمی محسوس کریں، تو یہ معیشت پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔

ترسیلات زر کے رجحانات

پاکستان میں ترسیلات زر میں اضافے کا رجحان ہمیشہ واضح رہا ہے۔ 2014 میں جب عمران خان نے ترسیلات زر میں کمی کی اپیل کی تھی، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اوورسیز پاکستانی اپنے خاندانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیسہ بھیجتے ہیں اور انہیں سیاسی معاملات سے زیادہ اپنے خاندانوں کی فلاح و بہبود کی فکر ہوتی ہے۔ اس وقت بھی عمران خان کی اپیل کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا اور ترسیلات زر میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے کو ملا تھا۔

دوسری جانب، اپریل 2023 میں رمضان کے مہینے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوا۔ عالمی سطح پر سیاسی بحرانوں کے باوجود پاکستانی عوام نے اپنے وطن کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اپنے عزیزوں کو اضافی رقم بھیجنا شروع کی۔ مارچ 2023 میں ترسیلات زر میں 27.5 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا، جو اس بات کا غماز تھا کہ پاکستانی قوم اپنے وطن کے معاشی حالات کے باوجود ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار تھی۔

جون 2023 میں بھی ترسیلات زر میں 4 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا، جو کہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔

معیشت میں استحکام اور ترسیلات زر

پاکستان کی معیشت میں اگرچہ سیاسی بحرانوں کے باوجود کچھ استحکام آنا شروع ہوا ہے، لیکن ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ اس بات کا غماز ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں نے ملکی معیشت کی مدد کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔ مالی سال 2024-25 کے ابتدائی چار مہینوں میں ترسیلات زر میں 11.8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان کی ترسیلات زر 32 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہیں، جو کہ ملکی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ ترسیلات زر کی یہ اضافی رقم پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرتی ہے اور ملکی معیشت کو معاشی بحرانوں سے باہر نکالنے میں مدد دیتی ہے۔

ترسیلات زر کے معاشی اثرات

ترسیلات زر کا معاشی اثر صرف پاکستانی خاندانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا ملکی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ جب ترسیلات زر میں اضافہ ہوتا ہے، تو اس سے ملک کی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ مالی استحکام کی طرف ایک قدم ہوتا ہے۔ یہ ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے کم دباؤ میں مبتلا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کے امکانات بھی بڑھتے ہیں۔

ترسیلات زر سے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ اس سے عوام کی روزمرہ زندگی بھی بہتر ہوتی ہے۔ ترسیلات زر کے ذریعے پاکستانی خاندانوں کو اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے میں مدد ملتی ہے، جس سے ان کی زندگی کی معیار میں بہتری آتی ہے۔ اس کے علاوہ، جب ملکی معیشت میں استحکام آتا ہے، تو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی مزید سرمایہ کاری کا امکان بھی بڑھتا ہے، جو کہ ملک کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

 در حقیقت پاکستان میں ترسیلات زر کی اہمیت پر کسی کو شک نہیں ہے۔ یہ ملک کی معیشت کا ایک اہم ستون ہے اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہے۔ عمران خان کی موجودہ اپیل کے باوجود، یہ بات واضح ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے وطن کی سیاسی صورتحال سے زیادہ اپنے خاندانوں کے مالی حالات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ملکی سیاست کا اثر معاشی معاملات پر پڑتا ہے، لیکن اوورسیز پاکستانیوں کی مدد ملک کی معیشت کے لیے ایک مضبوط ستون ثابت ہو رہی ہے۔

اس کے باوجود، عمران خان کی سیاسی حرکات اور بیانات کا اثر پاکستانیوں پر کیسے پڑے گا، یہ ایک سوال ہے جس کا جواب وقت ہی دے گا، لیکن ایک بات واضح ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے وطن کی معیشت کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts