خالد خان
پشتونوں کی سب سے بڑی بدقسمتی دماغ کا استعمال نہیں کرنا ہے، چاہے نجی معاملات ہو یا قومی اہمیت کے حامل فیصلے کرنے ہوں، پشتون صدیوں بعد بھی نہ ان غلط فیصلوں پر سوچتے ہیں، نہ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے سیکھنے کا تکلف کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر پھر پشتونوں کے برائے نام اہل فکر و نظر و قلم نے پوری کر دی ہے اور جھوٹی تاریخ اور گمراہ کن شان آن اور غیرت کی ہوا ان میں کچھ اتنی زیادہ بھر دی ہے کہ فٹ بال کی طرح جابجا ڈولتے ہیں، پھٹتے ہیں اور ٹھوکروں میں رہتے ہیں۔ قصور کسی کا بھی نہیں ہے، خطا ساری ان کی اپنی ہے کہ نہ قومیت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی مٹی کا انس ہے۔ وہی خانہ بدوشانہ فکر و عمل اور وہی قبائلی تقسیم مگر پھر بھی ان کے شعرا اور گائیک کہتے رہتے ہیں “میرا بڑا گناہ یہ ہے کہ میں پشتون ہوں”۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پشتونوں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کی سحر میں کچھ یوں مبتلا ہے کہ اپنی روایات، اقدار اور مثبت رویوں تک پی ٹی آئی پر قربان کرچکے ہیں۔ اسی جذباتی روش کی بدولت خیبر پختونخوا میں تسلسل کے ساتھ پی ٹی آئی کی تیسری حکومت قائم ہے جو بذات خود اقتدار لوٹنے کا ہیٹرک ہے۔ معاشی صورتحال، سیاسی ابتری اور انتظامی کوتاہیں تو ایک طرف، امن و امان کی صورتحال تباہ ہوچکی ہے۔ جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ اور سیکیورٹی اداروں پر دہشت گردانہ حملے گویا روز کا معمول بن چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع اور ضم شدہ قبائلی علاقے وزیرستان اور کرم دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کی نئے لہر کا نشانہ خصوصی طور پر سیکورٹی ادارے ہیں جو بیرونی دشمنوں کی ترتیب دی ہوئی پالیسیوں کا زندہ ثبوت ہے۔ بیرونی دہشت گرد کبھی بھی اپنے ناپاک عزائم میں اندرونی سہولت کاری کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بیرونی دشمنوں کو یہ سہولت کاری کسی نہ کسی صورت اندرون سے میسر رہی ہے جسے بعض سیاسی جماعتوں، دھڑوں، گروہوں یا افراد سے تو جوڑا جاسکتا ہے مگر کبھی یہ احساس اور خوف کسی بھی ذہن میں پیدا نہیں ہوا ہے کہ ان وطن دشمن سرگرمیوں کو کبھی بھی ریاستی یا حکومتی سرپرستی، تعاون یا مدد حاصل رہی ہو۔ دہشت گردی کی رواں لہر میں یوں لگ رہا ہے کہ جیسے صوبائی حکومت سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو پھر امن و امان جیسے اہم موضوع سے مکمل طور پر لاتعلق ہوچکی ہے۔ گزشتہ 10 مہینوں کے دوران سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر سب سے زیادہ حملے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئے ہیں جو خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی سردار علی امین گنڈاپور، گورنر فیصل کریم کنڈی، چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر حیات خان گنڈاپور کا آبائی ضلع ہے۔ ڈی آئی خان ڈویژن میں کل 87 حملے ہوئے ہیں جبکہ بنوں ڈویژن میں 72، ملاکنڈ ڈویژن میں 27 اور پشاور ڈویژن میں 24 حملے ہوچکے ہیں۔ ان 220 خون آشام حملوں میں 130 سیکیورٹی اہلکار جس میں جوان اور آفیسرز شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں جبکہ 154 جوان اور افیسرز زخمی ہوچکے ہیں۔
محکمہ انسدادی دہشت گردی خیبر پختونخوا کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2024 سے اکتوبر 2024 تک 429 افراد شہید اور 789 زخمی ہوچکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ڈی آئی خان ڈویژن میں شہداء کی تعداد 74، بنوں ڈویژن میں 72 اور شمالی وزیرستان میں شہداء کی تعداد 64 ہے۔ آگ اور خون کے کھیل نے سب سے زیادہ ڈیرہ اسماعیل خان، شمالی اور جنوبی وزیرستان اور بنوں ڈویژن کو متاثر کیا تاہم صوبے کے دیگر اضلاع بھی بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اس خونی کھیل میں 134 پولیس اہلکار شہید اور 326 زخمی ہوئے جبکہ عام شہریوں کی شہداء کی تعداد 115 اور زخمیوں کی 209 ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور ڈویژن میں اس دوران 12 پولیس اہلکار شہید اور 16 زخمی ہوگئے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ان 10 مہینوں کے دوران بھرپور جوابی کاروائیوں میں 588 خوارج ہلاک جبکہ 200 سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع شہداء اور زخمیوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے زیادہ بتاتی ہے۔
ویسے تو پاکستان کی تزویراتی اہمیت خطے میں تمام پڑوسی ممالک سے زیادہ ہے مگر خیبرپختونخوا کی سرزمین اس تزویراتی اہمیت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے جبکہ جنوبی اضلاع خیبرپختونخوا کی تزویراتی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ایک جانب اگر جنوبی اضلاع بلوچستان سے جوڑتے ہیں تو دوسری طرف پنجاب سے ہوتے ہوئے سندھ سے بھی منسلک کرتے ہیں۔ جنوبی اضلاع کی پٹی افغانستان، ضم شدہ اضلاع، پنجاب کے پوٹھوہار اور واخان کی تاریخی طور پر آباد پٹی کے ساتھ رابطے کا تزویراتی ذریعہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ وسیع علاقہ خیبرپختونخوا کے صوبائی حکومت نے خونخوار بھیڑیوں کے رحم و کرم پر نہ صرف چھوڑا ہے بلکہ دہشت گردوں اور خوارج کو صوبائی حکومت کی جانب سے مثبت سگنلز بھی جارہے ہیں جسکی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں خوارج کو پختونخوا میں بسانے سے رکھی گئی تھی اور ماضی میں سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے پشاور میں خوارج کو دفاتر اور سہولیات دینے کی مکرر پیشکشوں کی صورت میں تاریخ کا حصہ ہے۔ بعد ازاں سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے بھی انہی پالیسیوں کو جاری رکھا تھا جنہیں موجود وزیراعلی خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈاپور امن و امان سے لاتعلق رہتے ہوئے بڑھاوا دے رہے ہیں۔
جہاں خیبر پختونخوا دہشت گردی کی آگ میں بھسم ہو رہا ہے وہاں وزیر اعلی روزانہ کی بنیادوں پر ریاست کو دھمکیاں دیتے ہوئے کبھی اسلام آباد پر چڑھائی کے پیغامات نشر کرتے ہیں اور کبھی سر پر کفن باندھ کر صوابی میں شرپسندی کے لیئے خیمہ بستی کے قیام کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ بین الصوبائی ہم آہنگی، قومی سالیمیت اور ریاستی وحدت میں دانستہ دراڑیں ڈالنے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے عدالتی سزا یافتہ قیدی کو چھڑانے کے لئے پاکستان کو نظر آتش کرنے پر تلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اگر ایک طرف صوبے کو جنگل بناتے ہوئے معصوم شہریوں اور امن و امان کے داعی جوانوں اور آفیسرز پر خونخوار بھیڑیے چھوڑ دیے ہیں تو دوسری طرف بھیڑیوں کے شکاری ہمارے قابل فخر محافظ بھی چن چن کر نشانے باندھے ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور وزیراعلی سردار علی امین گنڈاپور کو ہوش کے ناخن لینے چاہیےاور محاذ آرائی کو ترک کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کمر بستہ ہونا چاہیے ورنہ یہ آگ سب کچھ راکھ کر دے گی۔