تحریر: روخان یوسف زئی
پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ:
کور کہ د غرہ پہ سر کے جوڑ کڑے
غل چے د خپلہ کورہ وی تالا بہ شینہ
اس ٹپے کا سادہ سا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اگر آپ اپنا گھر کسی آبادی اور میدانی علاقے سے کوسوں دور بھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر بنالیں مگر جب چور،ڈاکو یا رہزن اپنے ہی گھر کا ہو تو کسی بھی وقت اس گھر سے چوری ہوسکتی ہے،ڈاکہ پڑ سکتا ہے۔یعنی اگر اس گھر کو آگ لگے گی تو اسی گھر کے چراغ سے ہی لگے گی۔یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ”اپنے ہی گراتے ہیں نشمین پے بجلیاں“۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں جاری بدامنی،انتشار،شدت پسندی،انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لہر میں بیرون ہاتھ کے علاوہ اپنے کچھ اندرونی ہاتھ بھی شامل حال ہیں۔اگر ملک دشمن عناصر اور کٹرپرست مذہبی و سیاسی تنظیموں کی مخبری،رہبری، پیغام رسانی اور سہولت کاری نہ ہو تو دہشت گرد چاہے جتنے بھی طاقتور،چالاک اور ہر قسم اسلحہ سے لیس ہوں ،مجال ہے کہ کوئی منظم اور کامیاب کارروائی کرسکے۔
ہمارا ایک بڑا فکری مغالطہ یہ بھی ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور انتہاپسندی کی نظریاتی تعلیم صرف بعض مخصوص مذہبی تنظیموں اور جماعتوں سے ملتی اور پھیلتی ہے اور دیگر جماعتیں یا تنظیمیں اس سے مبراءہیں، یہی ہمارا ایک بہت بڑا فکری مغالطہ ہے ۔کیا ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے نہیں؟سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں سنتے نہیں کہ وہاں سے بھی نئی نسل کو ایسی نظریاتی تعلیم اور ترغیب دلائی جاتی ہے، ایسے ایسے سیاسی نعرے دیے جاتے ہیں،مختلف قسم کا پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے جس سے نئی نسل کے اذہان میں ریاست مخالف بیج بوئے جاتے ہیں۔ایک ایسا خود ساختہ کلچر اور سیاسی فضاءبنانے کی کوشش ہورہی ہے کہ جہاں بھی کوئی دہشت گردی یا شدت پسندی کا واقعہ رونما ہو اس کا الزام ریاست اور ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جائے لہٰذا یہ عناصر اور تنظیمیں اس طریقہ واردات سے ان واقعات کا رُخ اصل مجرموں سے موڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو دہشت گردوں کے لیے ایک قسم کی سہولت کاری سے کم نہیں۔اگر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کا آپس میں کوئی جنگ جھگڑا دنگا فساد ہوجائےیا کوئی مخالف جماعت اور تنظیم کی جانب سے ان پر کوئی قاتلانہ حملہ ہوجائے یا کوئی اور ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو اس کا الزام بھی ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جاتا ہے۔
اس کی ایک تازہ مثال گزشتہ دنوں پختون تحفظ مومنٹ کے معروف شاعر گیلہ من وزیر پر ہونے والا قاتلانہ حملہ ہے جس میں وہ شدید زخمی ہوئے تھے ۔چند دن ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور بالاخر موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر بھی آزاد داوڑ نامی شخص پر کاٹی جاچکی ہے مبینہ طور پر واردات کرنے کے بعد وہ دبئی فرار ہوگئے ہیں۔ ہم سب نے دیکھا اور سنا کہ لوگوں کی موجودگی میں گیلہ من وزیر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا،انہیں لاتوں،ڈنڈوں اور ہتھوڑے سے بڑی بے دردی سے مارا پیٹا گیا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے۔اس واردات کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے لیکن اس خبر کیساتھ ہی نہ صرف پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے کارکنوں بلکہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور قائدین نے بھی اس واقعہ کو”اس کے پیچھے وردی ہے“ کا نام دینے کی کوشش کی اور مختلف نعروں اور بیانات کے ذریعے سیاسی فضاءکو گرمانے میں لگے رہے۔
کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے پروپیگنڈوں اور الزام تراشیوں کے پیچھے ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو سنجیدگی سے جاننا چاہیئے۔یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت ہورہا ہے اور اس سازش میں پاکستان مخالف عالمی قوتوں کیساتھ ہمارے اپنے بھی شامل ہیں۔حالیہ کچھ عرصے کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے جس کا ایک ہی مقصد و مرام ہے اور وہ ہے ملک کی داخلی سلامتی کو غیر مستحکم کرنا اور ملک کی ترقی،امن اور خوشحالی کا راستہ روکنا ۔
یہ کن عالمی قوتوں اورعناصر کا ایجنڈا ہے اس حوالے سے نہ صرف سیکورٹی ادارے قوم کو بارہا بریف کرچکے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی خبردار کیا گیا ہے کہ القاعدہ اور طالبان ایک علامتی تعلق برقرار رکھتے ہیں اور افغانستان القاعدہ اور داعش سمیت عالمی دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن رہا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی پہلے سے ملک میں موجود ہے۔یہ جو جاری حالیہ دہشت گردی کی لہر ہے اس میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا بھی ہاتھ رہا ہے کیونکہ دہشت گردوں کو افغانستان سے باقاعدہ طور جرگہ کرکے مناکر اور دعوت دے کر انہیں اسلحہ سمیت پاکستان لائے تھے اور یہاں سہولتیں دی گئیں۔لہذا”چور گھر کے اندر بھی موجود ہیں”۔