عامر داوڑ
اس خطے میں درجنوں آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔ ان آپریشنز کے بعد حکومتِ پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات بھی کئی مرتبہ کیے ہیں مگر ان تمام کوششوں کے باوجود مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکل رہا۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم نے بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ اور سینئر صحافی ناصر داوڑ سے گفتگو کی۔
بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ مسئلے کا حل پاکستان میں نہیں، بلکہ افغانستان میں ہے۔ ان کے بقول، امریکہ بھی افغانستان پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا تو پاکستان کے پاس اتنی قوت نہیں کہ وہ افغانستان پر قبضہ کر سکے اور وہاں کے حالات کو درست کر سکے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کے اندر جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ کریں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں، آئین میں توسیع ہوئی ہے اور فاٹا کا نظام ختم ہوچکا ہے۔ موجودہ حالات میں مذاکرات ایک ملک سے ہو سکتے ہیں، مگر کسی دہشتگرد گروہ سے نہیں۔
ناصر داوڑ کا نقطہ نظر بھی دلچسپ ہے، ان کا کہنا ہے کہ جتنے بھی آپریشنز اور امن معاہدے اس خطے میں ہوئے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ “سب سے بڑا معاہدہ سوات میں ہوا، پھر شمالی وزیرستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے ہوئے ۔ ان معاہدوں اور آپریشنز کی ایک لمبی فہرست ہے جو 2005 سے اب تک جاری ہے مگر کوئی بھی معاہدہ کامیاب نہیں ہوا۔ اگر آپریشنز کی بات کریں تو سوات آپریشن کے علاوہ کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوا۔ میرے خیال میں، حکومتِ پاکستان کو نئے تجربات کی ضرورت نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سوات میں جس فارمولے کے تحت آپریشن کیا، اسی فارمولے کو دیگر علاقوں میں بھی نافذ کرے۔ وہی فارمولا کامیاب تھا اور وہی مسئلے کا حل ہے۔”
یہ دونوں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مسئلے کا حل مقامی اور علاقائی حالات پر منحصر ہے۔ جہاں بریگیڈیئر (ر)محمود شاہ افغانستان کی صورتحال کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، وہیں ناصر داوڑ حکومتِ پاکستان کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس پیچیدہ مسئلے کا حل شاید ایک متوازن حکمت عملی میں پوشیدہ ہے جو ان دونوں نقطہ نظر کو یکجا کرے۔
ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ علاقائی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی حالات کو بہتر بنائے اور دہشتگردی کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، افغانستان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا بھی ناگزیر ہے تاکہ اس خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے حملوں میں تیزی
گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے کے مختلف اضلاع میں 9