GHAG

صادق خان ایک بار پھر افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی مقرر

افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان بیک ڈور رابطوں کی اطلاعات

ٹی ٹی پی کو افغانستان میں بسانے کی خبریں بھی زیر گردش

فورسز کی جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں کارروائیاں مگر صوبائی حکومت اے پی سی سے لاتعلق

پشاور (غگ رپورٹ) وفاقی حکومت نے سینئر سفارتکار محمد صادق خان کو ایک بار پھر افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی مقرر کردیا ہے جس کو صحافتی حلقوں نے ایک اہم اقدام قرار دے دیا ہے کیونکہ وہ نہ صرف لمبے عرصے تک افغانستان میں پاکستان کے ایک فعال سفیر رہے ہیں بلکہ اس سے قبل بھی وہ نمائندہ خصوصی کے طور پر بھی  فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس سے قبل کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینئر پشتون سفارتکار آصف درانی خصوصی نمائندے کے طور پر فعال کردار ادا کرتے رہے مگر دو ماہ قبل ان کی مدت ختم ہوگئی اور اب صوابی سے تعلق رکھنے والے صادق خان کو پھر سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

بعض متعلقہ حلقوں کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت، رہنماؤں کے درمیان گزشتہ دو تین مہینوں سے عرصہ دراز کے بعد پہلی بار بیک ڈور رابطہ کاری کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس رابطہ کاری کو چین اور روس کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ دو خلیجی ممالک بھی تلخی کم کرنے کے لیے فعال رہے ہیں۔ بعض معتبر صحافتی حلقوں نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ سینئر افغان قیادت اور مذکورہ ممالک کی کوششوں اور رابطوں کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے دو تین ایسے صوبوں میں بسانے کے ایک فارمولے پر کام جاری ہے جن کی سرحدیں پاکستانی علاقوں سے دور واقع ہیں۔ اس ضمن میں ایک ماڈل پراجیکٹ کے طور پر صوبہ غزنی کا نام بھی لیا جانے لگا ہے۔ اس ضمن میں کالعدم گروپ یعنی ٹی ٹی پی کے سینکڑوں کمانڈروں اور جنگجووں کو ان دوست ممالک کی مدد اور فنڈنگ سے بسانے کا تجربہ کیا جائے گا اور اس بات کی ضمانت کی جائے گی کہ ایسا کرنے کے بعد پاکستان پر حملے نہیں کیے جائیں گے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ راولپنڈی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کا جو اعلامیہ سامنے آیا ہے اس میں ماضی کے برعکس افغانستان کے بارے کافی نرم رویہ اختیار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کے 8 خوارج کو ہلاک کردیا جبکہ متعدد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز گورنر ہاؤس پشاور میں ایک کامیاب آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریباً تمام اہم پارٹیوں اور مشران کے علاوہ سینئر سیاستدانوں کی قابل ذکر تعداد شریک ہوئی تاہم پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اے پی سی میں باقاعدہ دعوت کے باوجود شرکت نہیں کی اور اس کا بائیکاٹ کیا جس پر صحافتی اور سیاسی حلقوں کے علاوہ عوام کی اکثریت نے سخت تنقید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کو صوبے کے سیکورٹی حالات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts