شمس مومند
جب اپنی حکومت کے آخری ایام میں عمران خان کو یقین ہوگیا کہ اب عدم اعتماد پیش بھی ہونا ہے اور کامیاب بھی۔ انہوں نے جنرل باجوہ اور حزب اختلاف کی بجائے ملک وقوم سے دشمنی کرتے ہوئے آئی ایم ایف کیساتھ کیا گیا اپنا ہی معاہدہ توڑ دیا اور نیپرا و اوگرا جیسے متعلقہ اداروں کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بجائے کمی کا اعلان کردیا۔ وہ دن اور آج کا دن، پہلے پی ڈی ایم حکومت پھر نگران حکومت اور اب مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی اداروں کا توڑا ہوا اعتماد بحال کرنے اور معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔دوست ممالک اور عالمی اداروں کے عدم اعتماد کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عمران حکومت کے لئے فنڈز لینے میں بھی جنرل باجوہ اور فیض حمید یعنی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے بطور ضامن اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا مگر جنرل باجوہ،عمران خان کو معاہدہ توڑنے سے روکنے میں ناکام رہے اور فیض حمید اسے روکنا نہیں چاہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی قیادت میں قائم خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل بھی ابھی تک مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اب تمام تر کوششوں دعووں اور خوش گمانیوں کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف سعودی عرب اور چین جیسے دیرینہ دوست ممالک بھی پاکستان سے تعلقات میں گرمجوشی کی بجائے سردمہری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم، آرمی چیف اور نواز شریف سمیت اعلی سطحی دوروں کے باوجود نہ چین کی جانب سے سی پیک پلس شروع کیا گیا نہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دورہ پاکستان اور بھاری سرمایہ کاری کو یقینی بنایا۔جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے بھی نیا قرضہ لینے میں مشکلات درپیش ہے۔ یہ مشکلات صرف ان ممالک کے وعدے وعیدوں تک محدود نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی کمزور حکومت پیپلز پارٹی کے سامنے بے بس ہے اور عوام سمیت آئی ایم ایف سے ببانگ دہل کئے گئے وعدیں وفا نہیں کرپارہا جس میں پی آئی اے اور سٹیل مل کی نجکاری سر فہرست ہے۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ جون تک پی آئی اے کو پرائیوٹائز کیا جائے گا مگر اگست ختم ہونے کو ہے۔ مستقبل قریب میں بھی اسکے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ سٹیل مل پرائیوٹائزیشن پر بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔
یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اسکے جیالے ہی ا ن دو اداروں کی تباہی کے ذمہ دار اور اس کے سب سے بڑے بینیفشری ہے۔ انھوں نے اپنے مختلف ادوار میں ہزاروں کی تعداد میں جیالے ان اداروں میں بھرتی کئے۔غیر ضروری ملازمین کی بے تحاشا تنخواہوں اور یونین بازی نے ان اداروں کا بھٹہ بھٹا دیا۔مگر پیپلز پارٹی نے آج تک قومی پیسے سے اپنے ورکروں کو نوازنے کا سلسلہ بحال رکھا ہوا ہے۔
ملک کے معاشی مسائل کو کم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو سختی سیاسی استحکام کے لئے ایک سیاسی جماعت کیساتھ کر رہی ہے جب تک وہی سختی معاشی استحکام کے لئے پرائیوٹائزیشن کی مخالفت کرنے والی جماعت کیساتھ نہیں کرے گی، نہ پرائیوٹائزیشن کا عمل مکمل ہوگا نہ معاشی استحکام پیدا ہوگا اور نہ ترقیاتی کاموں میں شفافیت لائی جاسکے گی۔
اسکے علاوہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق میں 17 وزارتوں کا خاتمہ پیپلز پارٹی کا انتخابی نعرہ تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے لئے اس سے بہتر موقع کوئی نہیں کہ ان تمام وزارتوں کو فوری ختم کیا جائے۔مگر قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے صرف یہ اقدامات بھی کافی نہیں۔ کابینہ کی تنخواہیں نہ لینے جیسے نمائشی نعروں کی بجائے گریڈ 17 سے اوپر فوج اور عدلیہ سمیت تمام افسران کی مراعات کو 50 فیصد کم کیا جائے۔ صرف تین سال کے لئے نئی گاڑیاں خریدنے، بیرون ملک دوروں اور کوئی بھی نیا ترقیاتی پراجیکٹ شروع کرنے پر پابندی لگائی جائے اور عام ملازمین اور اسمبلی و سیکرٹریٹ ملازمین عدلیہ وغیرہ کی تنخواہوں میں فرق کو زیادہ سے زیادہ 20 فیصد تک محدود کیا جائے۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں و کمپنیوں میں تنخواہیں و مراعات عالمی مارکیٹ کی بجائے ملکی مارکیٹ کے مطابق رکھی جائے اور اسکو بھی کارکردگی سے مشروط کیا جائے۔
میں کوئی معاشی ماہر نہیں مگر بحیثیت اپنے گھر کے سربراہ صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب گھر قرضوں میں ڈوب رہاہوں تو عیاشیاں سیر سپاٹے چھوڑ کر اپنے اخراجات کو کم کیا جاتا ہے قرضے لے لیکر افسران کو کھلانا اور گھر بیٹھے ملازمین کو تنخواہوں میں بانٹنا مسائل کا حل نہیں۔ اور یاد رکھیئے !کہ عوام پر ٹیکس بڑھانا اور بجلی و پٹرول مہنگا کرنا مشکل فیصلے نہیں۔ درجہ بالا تجاویز ہی وہ مشکل فیصلے ہیں جو پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ناگزیر ہیں۔