GHAG

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

روخان یوسف زئی

وہ جو کہتے ہیں کہ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“ تو اصل میں وہی فارسی کے اس معقولے کی ترجمانی ہے کہ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“وطن عزیز میں پے درپے دہشت گردی کے جو افسوسناک بلکہ قتل ناک اور وحشت ناک واقعات رونما ہورہے ہیں۔ سیکورٹی فورسز،پولیس اور عام بے گناہ لوگوں کو نشانہ بناکر ان کا خون پانی کی طرح بہایا جارہاہے۔جس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ملک میں انتشار،تفرقہ،دہشت اور بے یقینی کی فضاءقائم کرنا تاکہ پاکستان معاشی،سیاسی اور جمہوری لحاظ سے کمزور ہوجائے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے جس میں بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمن بھی شامل ہیں۔

گزشتہ دنوں ضلع قلات کے علاقے شاہ مردان میں سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کے بروقت جواب میں چھ دہشت گرد ہلاک اور سات جوان شہید ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز قوم کے ساتھ مل کر بلوچستان کے امن و استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

یہاں پشتو کا ایک ٹپہ یاد آیا کہ

پہ صبر صبر پورا نہ شوہ

سبا می نیت دے بے صبرئی تہ ملا تڑمہ

مفہوم اس ٹپہ کا یہ ہے کہ صبر صبر سے تو کام نہ ہوسکا کل سے نیت کیا ہوا ہے کہ بے صبری پر کمر باندھ لوں۔تو بات وہی پر آجاتی ہے جس کا ذکر کالم کی ابتدا میں کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اب حکومت اور سیکورٹی فورسز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، انتباہی بیانات اور تقریروں سے شدت پسندوں،مذہبی انتہاپسندوں ،ذیلی قوم پرستوں اور دہشت گرد گروہ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی ان انتباہی بیانات اور تقاریر سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہوئے راست راست پر آجاتے۔مگر جیسا کہ اس کالم کا عنوان ہے کہ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“ لہٰذا ریاست کو اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لیے مجبوراً ایسے ہی اقدامات اٹھانے پڑیں گی۔

اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کا ایجنڈا انسداد دہشت گردی مہم کو دوبارہ تیز اور متحرک کرنے پر مرکوز تھا۔اجلاس میں وفاقی کابینہ کے ارکان،صوبائی وزرائے اعلیٰ،آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مضبوط اور مربوط فوجی آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے۔اور ہونا بھی چاہیئے کہ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔پاکستان کا وہ کونسا بڑا شہر ہے جو اس ناسور کا شکار نہیں ہوا ہے یا نہیں ہورہا ہے۔البتہ بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والا فتنہ الخوارج کا خیبرپختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ نشانے پر ہیں۔دشمن عناصر، اندرونی سہولت کاروں مخالف ریاستوں کی سرپرستی میں سیاسی علحیدگی پسند،فرقہ وارانہ،نسلی اور مذہبی بنیادپرستوں کی وجہ سے سیکورٹی فورسز،پولیس اور ملک کے عام شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں گزشتہ دو دہائیوں میں دس ہزار سیکورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت 80ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں جاچکی ہیں۔پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150ارب ڈالرز سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔یہ حقیقت تو اب پوری دنیا سے ڈھکی چھپی نہ رہی کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت کا بڑا ہاتھ ہیں۔صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔کہ اندرون ملک چھپے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کار مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ جب جی چاہتا ہے بھاری جانی نقصان پہنچادیتے ہیں۔ یہ ملک دشمن بڑے چالاک اور جدید طریقہ واردات سے تربیت یافتہ اور لیس نظر آتے ہیں۔کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عناصر اور گروہ بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

لہذا ہم انہی سطور میں بارہا ذکر کرچکے ہیں کہ جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں۔ان کی زیرنگرانی اور تربیت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں کے اذہان میں مذہبی انتہاپسندی،فرقہ واریت اور شدت پسندی کی نظریاتی تعلیم ڈالتی اور پھیلاتی ہیں یہ جنگ جیتنا مشکل نظرآتا ہے۔اس لیے مضبوط اور مربوط آپریشن کے ساتھ ساتھ ان فکری کمانڈروں،سہولت کاروں اور نرسریوں کا بھی ٹھوس بندوبست اور مکمل خاتمہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگی حکمت عملی کا اہم حصہ ہونا چاہیئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp