GHAG

عدالتی فیصلہ اور پارلیمنٹ کا جواب

تحریر:  شمس مومند

8 فروری کو ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں چونکہ پی ٹی آئی نے مجبوراً انتخابی نشان کے بغیر حصہ لیا تھا لہٰذا ملک میں موجود انتخابی قوانین کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ جیتنے والے ممبران آزاد تصور ہوئے اورالیکشن ایکٹ  2017 ءکے مطابق جیتنے والے آزاد امیدواروں کو حلف لینے کے تین دن کے اندر اندر یا کسی پارٹی کو جائن کرنا ہوتا ہے یا پھر وہ ہمیشہ ہی آزاد رہیں گے۔ انہی قوانین کی روشنی میں پی ٹی آئی کے متفقہ فیصلے کے مطابق کچھ ممبران نے سنی اتحاد کونسل نامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جبکہ کچھ  ممبران نے آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ پی ٹی آئی میں سینکڑوں کی تعداد میں نامی گرامی قانون دان اور سینئر وکلاء موجود ہیں ،اس وقت ان میں کسی نے بھی نہ ہی دوسری پارٹی کو جائن کرنا غلط سمجھا نہ  اسکو کسی بھی عدالت میں چیلینج کیا۔ پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کی وساطت سے پہلے الیکشن کمیشن اور بعد میں عدالت سے صرف مخصوص نشستوں کا مطالبہ کیا جو بقول ان کے ان کا حق بنتا تھا۔

یاد رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 ءکی روشنی میں پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اور اسکے بعد پشاور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کردی۔ قانونی ماہرین میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا تھا کہ دستیاب شواہد کی روشنی میں سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کا حقدار نہیں ہوسکتا ہے البتہ یہ نشستیں باقی پارٹیوں میں تقسیم کرنے پر ماہرین کی رائے منقسم تھی۔

سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 12 جولائی 2024 ءکو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ نے حیران کن اکثریتی فیصلہ دیا جس میں ایک طرف سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو مسترد کردیا گیا یعنی اسکو پشاور ہائی کورٹ ہی کی طرح مخصوص نشستوں کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل اپیل مسترد ہونا ہی قانون کے مطابق اور اصل فیصلہ ہے مگر ججز صاحبان نے حیران کن طور پر پی ٹی آئی کو نہ صرف بطور پارٹی تسلیم کیا ( حالانکہ موجود قوانین کے مطابق مقررہ مدت میں انتخابات نہ کرواکر الیکشن کمیشن نے ان سے انتخابی نشان واپس لیا تھا اور وہ بطور پارٹی نہ انتخابات میں موجود تھی نہ پارلیمنٹ میں ) بلکہ وہ مخصوص نشستیں جو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ نے باقی پارٹیوں میں تقسیم کو درست قرار دیا تھا ،ان سے واپس لینے اور پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ بھی دے دیا۔ اس پر مستزاد مضحکہ خیز صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تو اپیل کے لئے تاریخ مقرر کرنے والی تین رکنی ججز کمیٹی میں سے دو ججز نے چھٹیوں کا کہہ کر اپیل مقرر کرنے سے انکار کردیا۔ حکومت نے اسکا مطلب یہ لیا کہ سپریم کورٹ کے بعض ججز صاحبان اپیل سے پہلے ہی ایک آئین سے ماورا فیصلے کو حکومت سے منوانا چاہتی ہے اس لئے جوابی کارروائی کے طور پر انھوں نے پارلیمنٹ کے بااختیار فورم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 اور 104 میں ترامیم کرکے سپریم کورٹ فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فرسٹ ایمپریشن کیسز کی وضاحت کے لئے قانون سازی کو رٹ روسپیکٹیو ایفیکٹ (یعنی پرانے تاریخ سے لاگو) کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک دفعہ پارٹی میں جانے کے بعد دوبارہ پارٹی تبدیل کرنا خلاف قانون ہے، عدالت اسکی اجازت نہیں دے سکتی۔ اسی طرح پارٹی کے انتخاب کے لئے قانون میں 3 دن کا وقت مقرر ہے ۔سپریم کورٹ نے 15 دن کا وقت مقررکرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق  جب تک آئین کے کسی شق کو چیلنج نہ کیا گیا ہو عدالت آئین کو نہ دوبارہ لکھ سکتی ہے نہ اسکو ختم کرسکتی ہے، نہ اسکے کسی سیکشن کو نظر انداز کرکے فیصلہ دے سکتی ہے ۔یہی موقف گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی اپیل میں بھی اختیار کیا ہے۔

 اگرچہ اس نئی قانون سازی کو پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے مگراب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو محدود کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے یا پھر پارلیمنٹ کی سپر میسی اور حق قانون سازی کو تسلیم کرکے آگے بڑھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts