زبیر یوسفزئی
سٹی پولیس اسٹیشن صوابی میں گزشتہ شب ہونیوالے واقعے کو حادثہ قرار دینے کی بجائے کسی دہشت گرد حملے کا نتیجہ قرار دینے کا سلسلہ جاری ہے اور متعدد سیاسی رہنماؤں کے علاوہ صوبائی حکومت کے بعض ذمہ داران نے بھی تحقیقات کا انتظار کیے بغیر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اس واقعے کو دہشتگردی کا نتیجہ قرار دیا ہے جن میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد قیصر کے بھائی عاقب خان بھی شامل ہیں، تاہم پولیس حکام کا واضح موقف یہ ہے کہ یہ واقعہ شارٹ سرکٹ کے باعث مال خانے میں آگ لگنے کی وجہ سے سامنے آیا ہے اور یہ کہ اس میں دہشت گردی کا فیکٹر خارج از امکان ہے۔
دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں حسب معمول بعض دیگر کو دیکھتے ہوئے اس کا یہ کہہ کر کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے کہ یہ ان کی جانب سے بارودی مواد رکھنے کے نتیجے میں کرایا جانے والا ایک حملہ ہے۔
اس واقعے میں دو افراد جاں بحق ہوئے جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے جن میں سے اکثر کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی باچا خان میڈیکل کمپلکس صوابی میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی جبکہ اسی شام وزیراعلیٰ کی ہدایت پر خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس ہنگامی طور پر صوابی پہنچ گئے جہاں انہوں نے نہ صرف زخمیوں کی عیادت کی بلکہ مقامی پولیس حکام سے واقعہ کی تفصیلات بھی معلوم کیں۔ ان کو بتایا گیا کہ مال خانے میں آگ لگنے کے باعث یہ حادثہ ہوا ہے تاہم عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوگئی جب صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے گھنٹوں کے اندر ابتدائی تحقیقات کا انتظار کیے بغیر اپنی ہی پولیس فورس اور انٹلیجنس ایجنسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کو ایک دہشت گرد حملہ قرار دے دیا اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی یہی بیانیہ لیکر آگے بڑھنے لگے جس کے باعث نہ صرف پولیس اور دیگر اداروں کے موقف کو دھچکا لگا بلکہ عوام میں کنفیوژن پھیلنے کا راستہ بھی ہموار ہوا اور بات یہاں تک پہنچی کہ بعض حلقوں نے اسے کسی ڈرون حملے کا نتیجہ قرار دینے کے پروپیگنڈے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اسی کنفیوژن اور پروپیگنڈے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان بھی پیچھے نہیں رہی اور اس نے ایک باقاعدہ بیان میں اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔
گزشتہ روز گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی صوابی کا دورہ کرتے ہوئے نہ صرف متعلقہ حکام سے بریفنگ لی بلکہ زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اس قسم کے واقعات اور صوبے میں جاری بدامنی کا ذمہ دار قرار دے دیا۔
گورنر خیبرپختونخوا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کی تمام توجہ سیاسی کشیدگی بڑھانے اور کرپشن پر مرکوز ہے اس لئے صوبے کے سیکورٹی اور دیگر مسائل بے قابو ہوگئے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سوات میں صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں غیر ملکی سفارتکاروں کو سیکورٹی فراہم نہ کرنے کا رویہ ہے جس نے سنگین نوعیت کے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔