تحریر : اے وسیم خٹک
عمران خان کی حالیہ سول نافرمانی کی تحریک ان کی سیاسی حکمت عملی میں ایک اور جذباتی فیصلہ ہے جس کے کامیاب ہونے کے امکانات نہایت محدود ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سول نافرمانی جیسی تحریکیں کبھی وہ نتائج نہیں دے سکیں جن کی توقع کی گئی تھی۔ عمران خان نے ایک بار پھر عوام کو حکومت کے خلاف کھڑے ہونے، سرکاری واجبات ادا نہ کرنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر روکنے کی ترغیب دی ہے۔ تاہم، یہ اقدامات نہ صرف غیر عملی ہیں بلکہ ان کے ممکنہ اثرات بھی محدود نظر آتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں کہ عمران خان نے سول نافرمانی کی اپیل کی ہو۔ 2014 کے دھرنے کے دوران بھی انہوں نے بجلی کے بل جلانے اور عوام کو ٹیکس اور سرکاری واجبات ادا نہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اس وقت ان کے قریبی ساتھیوں اور اہل خانہ نے بھی ان کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مثال کے طور پر، ان کی ہمشیرہ نے لاہور میں ان کی رہائش گاہ کا بجلی کا بل ادا کر دیا، جبکہ بنی گالا کا کنکشن بھی واجب الادا رقم ادا کر کے بحال کروایا گیا۔ یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب تحریک اپنے عروج پر تھی اور اس ناکامی نے واضح کر دیا کہ عمران خان کی اپیل عوامی سطح پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہی۔
عالمی تاریخ میں سول نافرمانی کی کامیابی کی مثالیں ان مخصوص حالات میں ملتی ہیں جہاں عوامی حمایت، مضبوط حکمت عملی، اور درست وقت نے اہم کردار ادا کیا ہو۔ مہاتما گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف نمک مارچ کے ذریعے سول نافرمانی کو مؤثر احتجاج کا ذریعہ بنایا، جبکہ مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا نے بھی اس حکمت عملی کو کامیابی سے اپنایا۔ تاہم، پاکستان میں عوامی مسائل کی نوعیت مختلف ہے اور ایسی تحریکیں ہمیشہ غیر مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
اس بار عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلات زر روکنے کی اپیل کی ہے۔ یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ اور غیر دانشمندانہ تجویز ہے۔ بیرون ملک پاکستانی اپنی کمائی اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے بھیجتے ہیں، نہ کہ حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے۔ ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی روزمرہ ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی غیر یقینی اور غیر منظم تحریک کا حصہ بنیں۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ عمران خان کے حمایتی قانونی ذرائع سے ترسیلات زر بند کرنے اور ہنڈی یا حوالہ جیسے غیر قانونی ذرائع کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں۔ یہ نہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی محنت کی کمائی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اسی طرح، اٹلی میں مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف سول نافرمانی کی تحریک کو رد کیا بلکہ پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عہد بھی کیا۔ دیگر ممالک میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھی یہی ردعمل سامنے آ رہا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ عوام اس تحریک کو قومی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یہ وقت سیاستدانوں کے لیے جذباتی فیصلوں سے گریز کرنے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور عملی کوششوں کا ہے۔ سول نافرمانی جیسے اقدامات وقتی توجہ تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن عوامی مسائل کے حل کے لیے یہ غیر مؤثر اور نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اگر یہی حکمت عملی جاری رہی تو عمران خان کی حالیہ تحریک بھی ماضی کی طرح ناکام تجربہ ثابت ہوگی، جس سے نہ عوام کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی ملک کو۔بلکہ اس کا نقصان عمران خان کو ہی ہوگا۔
(31دسمبر 2024)