GHAG

مثالی قوانین کی ضرورت

روخان یوسف زئی

گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی صدارت میں دو روزہ 84 ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ مذکورہ کانفرنس نے بڑے سنجیدہ انداز اور لب ولہجے میں وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ بے لگام غیر اخلاقی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں زہر اگلنے جھوٹ،بے بنیاد اور معاشرتی بگاڑ و تقسیم کا بیج بونے کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت قوانین بنائے اور ان قوانین پر عمل درآمد کرائے۔ سیاسی ومالی فوائد کے لیے جعلی خبریں پھیلانے والوں کی نشاندہی کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔کانفرنس نے حکومت پر جس بات کا زور دیا ہے وہ بالکل بجا اور موجودہ حالات کامتقاضی ہے کیونکہ جب تک ان مسائل پر قابو پانے کے لیے موثر قوانین نہ ہوں گے،ملوث عناصر کو قرارواقعی سزا نہ دی جائے تب تک ان مسائل پر قابوپانا یا اسے جڑ سے اکھاڑنا ناممکن ہوگا۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت پاکستانی ریاست اور معاشرے کو جن اہم اور خطرناک مسائل درپیش ہیں وہ ہیں انتہاپسندی، شدت پسندی،دہشت گردی، ریاست اورملک کے دفاعی اداروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا،غیرمصدقہ خبریں،فیک نیوز سمیت فیک تصاویر وغیرہ اور یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے۔ جس میں ایک طرف بہت سے دیگر عوامل بھی اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں مگر میڈیا اور پھر خصوصاً سوشل میڈیا جس نے موجودہ دور میں ایک نئی طاقت اور اہمیت حاصل کررکھی ہے۔دراصل وہ اس سارے عمل میں ایک عامل کے طور پر موجود ہے۔بالفاظ دیگر پاکستان میں شدت پسندی کا مظہر اور ذرائع ابلاغ دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا نت نئے طریقوں اور ذرائع سے پرتشدد انتہاپسندی کے مظہر کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ہمارے ہاں بعض مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی نظریاتی اساس کے بارے میں بھی ہمیں ادراک اور اگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔اور اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیئے کہ ان جماعتوں کی اس نظریاتی اساس پر انتہاپسندی اور شدت پسندی کا یہ سیاسی،علاقائی اور عسکری رنگ کیسے اور کیونکر غالب آیا ہے۔صورت حال کے درست تجزیے اور موثر پالیسی کی تشکیل کے لیے ہمیں بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کیونکہ آج پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جارہا ہے جہاں انتہاپسندوں اور شدت پسندوں کا اثر رسوخ روز بروز بڑھتا جارہا ہے جس کے باعث یہ پروپیگنڈا اور تاثر بھی پھیلایا جارہا ہے کہ یہ شدت پسند کسی بھی وقت پاکستانی ریاست پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔اور اس پروپیگنڈے اور غلط تاثر پھیلانے میں سب سے زیادہ سوشل میڈیا پیش پیش ہے۔جس کے غیرذمہ دارانہ اور بے لگام استعمال نے آج ہمارے لیے سنگین مسائل پیدا کیے ہوئے ہیں۔

نظریہ ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے اگر ہم نے اسے کھودیا تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ہمارے ہاں دشمن طاقتیں اور شرپسند عناصر ہماری نظریاتی بنیادوں کو ہلانے اور کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جعلی خبروں،غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے ملک کے دفاعی اداروں پر کاری ضرب لگانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔اس مسئلے کا سب سے قابل غور پہلو سوشل میڈیا ہے جسے جعلی خبروں، پروپیگنڈے، غلط معلومات پھیلانے کے لیے بلاخوف و خطر بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔جس کا بنیادی مقصد ایک معاشرے میں جھوٹ بولنا،جھوٹ پھیلانا اور جھوٹ کے بیانیے کو فروغ دیناہے۔بالفاظ دیگر قومی سلامتی کو نشانہ بناکر اعلیٰ اداروں کی تضحیک کرنا اور پھر انہیں کمزور کرکے ریاست اور معاشرے کے اندر انتشار پھیلانا۔تاہم فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی جانب سے سخت قوانین کے مطالبے سمیت حکومت کی جانب سے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016ءمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی منصوبہ بندی وقت کا تقاضاہے۔جس کے تحت ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جائے گی۔جس کو آن لائن مواد کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا تک رسائی کو روکنے کے علاوہ جعلی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار حاصل ہوگا۔جو قابل تعریف اقدام ہوگا۔

جس طرح یورپ ،امریکا،ترکی،جاپان اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک میں ایسے قوانین رائج ہیں جن کے ذریعے جھوٹی خبروں کی تشہیر اور ڈس انفارمیشن کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔لہذا فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی جانب سے جو مطالبہ حکومت سے کیا گیا ہے اسے جتنا جلدی ممکن ہوسکے پورا کیا جائے اور ملک میں ایسے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔تاکہ ریاست اور دیگر قومی و دفاعی اداروں کے خلاف جو جعلی خبریں،غلط معلومات اور طرح طرح کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔اس پر نہ صرف قابو پایا جاسکے بلکہ ملوث گروہ اور عناصر کو ایسی کڑی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے ایک ایسی مثال بن جائے۔ کہ پھر کوئی جھوٹی خبروں،غلط معلومات یا پرپیگنڈا کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp