GHAG

خیبرپختونخوا میں امن وامان کی خراب صورتحال، اصل ذمہ دار کون؟

خالد خان مومند

خیبرپختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں سال 2024 کے دوران امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں صرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پانچ سو(500) سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے جبکہ دہشت گردوں کے خلاف 1400 آپریشنز کیے گئے، جس میں 550 کے قریب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور 320 شدت پسندوں کو زخمی یا گرفتار کیا گیا۔

دہشت گردی کی اس لہر میں قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال نسبتاً جنوبی اضلاع سے بہتر رہی حالانکہ اس وقت صوبے کے گورنر، وزیر اعلیٰ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس سمیت اہم عہدیداران کا تعلق جنوبی اضلاع سے ہیں۔

گزشتہ دنوں بنوں میں دہشت گردی کے خلاف اور امن کے لیے مقامی تاجر برادری کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی مگر بدقسمتی سے وہ بھی سیاست کی نظر ہوگئی ۔ اس احتجاج میں اگر ایک طرف مقامی لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تو دوسری جانب حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف سمیت ،جے یو آئی (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان نے شرکت کی لیکن بدقسمتی سے امن کے لیے نکالی گئی ریلی بد امنی کا شکار ہوگئی ۔

اگر عوام یا دیگر سیاسی اور غیر سیاسی گروہوں کی جانب سے امن کا مطالبہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ ان کا آئینی اور انسانی حق ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ 11 سال سے صوبے میں برسر اقتدار سیاسی جماعت مارچ ،احتجاج اور ریلیاں کس کے خلاف کر رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف حکومت میں رہ کر بھی سیاست کے ساتھ ریاست مخالف کیوں؟

اگر دیکھا جائے تو گذشتہ دہائی کے دوران خیبرپختونخوا میں نہ صرف دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں بلکہ دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

چند حقائق جسے پاکستان تحریک انصاف گزشتہ کئی سالوں سے نظرانداز کر رہی ہے:

پشاور،مردان، بنوں، ڈی آئی خان تو کیٹیگری اےعلاقے ہیں، وہاں تو امن و امان کی ذمہ دار پولیس اور سول انتظامیہ ہے جو صوبائی حکومت کے کنٹرول میں آتے ہیں۔ جبکہ پولیس، سی ٹی ڈی، سپیشل برانچ، فرنٹئیر کانسٹیبلری اور خاصہ دار بھی صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں۔ اگر امن خراب ہے تو صوبائی حکومت اس کی ذمہ داری سے کیسے برات کا اعلان کرسکتی ہے؟

اسی طرح گزشتہ کئی سالوں کے دوران بجلی چوری کم نہیں کی جاسکی اور آئے روز وفاق مخالف نعرے لگا کر احتجاج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

پنجاب حکومت کے ساتھ گندم کے معاملے پر لڑنے والے صوبائی حکومت نے خوراک، گندم کی پلاننگ کبھی نہیں کی، سوائے احتجاج کے۔ ایسا ہی حال تعلیم کے میدان میں بھی ہے اور ⁠ایک بھی نئی یونیورسٹی نہیں بنائی سوائے صوبے کے بچوں کی دوسرے صوبے تعلیمی کوٹے لینے کے احتجاج کے۔

خیبرپختونخوا میں ناقص گورننس، چوری اور کرپشن عروج پر، روڈ خستہ حال ہے لیکن ان کو چھپانے کے لیے احتجاج اور سیاسی بیانات کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

باوجود اس کے کہ صوبائی حکومت ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہیں کررہی لیکن آئینی اور قانونی طور پر صوبائی حکومت صوبے میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts