افغان حکومت کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا، اقوام متحدہ رپورٹ
عرفان خان
افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال پر اقوام متحدہ کی جانب سے جاری سہ ماہی رپورٹ میں امارت اسلامی حکومت کے خلاف حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ قومی مزاحمتی محاذ (نیشنل ریزسٹنس فر نٹ) اور افغانستان آزادی محاذ (افغانستان فریڈم فرنٹ) کو امارت اسلامی کیلئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاک افغان سرحد پر کشیدگی کی وجہ افغان سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے ارکان کی موجودگی قرار دیا گیا ہے۔ افغان حکومت کے خلاف برسرپیکار دونوں مسلح باغی گروپ نے اس عرصہ کے دوران کامیاب کاروائیاں کی ہیں جن کی وہ ذمہ داری بھی قبول کرچکے ہیں۔ رپورٹ میں افغان رہنماؤں کے درمیان مسلسل اندرونی تناؤ کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی جاری جائزہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حال ہی میں اسے سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلح اپوزیشن کا علاقائی کنٹرول پر طالبان کی گرفت کے خلاف کوئی نمایاں چیلنج سامنے نہیں آیا۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیاہے، دو مخالف گروپوں نے رپورٹنگ کی مدت کے دوران تصدیق شدہ حملے کئے جو افغانستان فریڈم فرنٹ (اے ایف ایف) اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) تھے۔ یہ دونوں گروپس، کابل کی بین الاقوامی سطح پر حمایت یافتہ سابق حکومت کے سیاسی اور فوجی حکام پر مشتمل ہیں جنہیں اس وقت کے باغی طالبان نے اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ ان باغی گروپوں نے اس رپورٹ کے سامنے آنے سے پہلے، نومبر کے دوران کم از کم 50 طالبان اہلکاروں اور فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ملک کے شمال اور شمال مشرق میں حملے کے بعد فرار ہونے والے گروپ ارکان کی یہ شورش سب سے زیادہ فعال رہی ہے۔ ان علاقوں میں طالبان کو 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور میں نمایاں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیے گئے دری اور انگریزی میں مختصر بیانات میں افغانستان فریڈم فرنٹ اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ آف افغانستان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کے جنگجو طالبان کے ارکان کو چوکیوں، فوجی اڈوں اور یہاں تک کہ شاہراہوں پر بھی باقاعدگی سے نشانہ بناتے ہیں۔ یوناما کا کہنا ہے کہ دونوں گروپوں کی توجہ دارالحکومت کابل میں طالبان کی سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے پر مرکوز تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ نے پچھلے تین ماہ میں”29 تصدیق شدہ حملے”کئے جن میں سے 20 کابل اور باقی شمالی افغان صوبوں تخار، بغلان اور پروان میں کئے گئے ۔ افغانستان فریڈم فرنٹ نے 14 حملے کئے، یہ تمام حملے کابل میں کئے گئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دونوں گروہوں نے ڈی فیکٹو سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملہ کرکے فرار ہوجانے کے حربے استعمال کئے۔22 حملوں میں دستی بم پھینکے گئے اور سات دیگر میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کا استعمال کیاگیا۔ 26 فروری کو این آر ایف کے دعویٰ کردہ حملے میں کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے طالبان کے زیرانتظام ملٹری زون کو نشانہ بنایا گیا، تنصیب پر تین مارٹر فائر کیے گئے لیکن کوئی تصدیق شدہ نقصان یا جانی نقصان نہیں ہوا۔
یوناما کا یہ تجزیہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہیں جب میڈیا پر طالبان کے کریک ڈاؤن نے صحافیوں کے لیے مستند معلومات تک رسائی اور باغیوں کے دعوؤں کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ اندرونی اختلافات پر جمعہ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں گورننس کے امور پر طالبان کے اندر کچھ اختلافی خیالات کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی فیکٹو حکام نے عوامی اتحاد کو برقرار رکھا اور پورے قومی علاقے پر اپنا اختیار قائم کیا، حالانکہ ان کے ڈھانچے میں کچھ اندرونی تناؤ موجود تھا۔ طالبان کے عہدیداروں نے اپنے سخت گیر سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے داخلی اختلافات کے بارے میں بیانات کو تواتر سے مغرب کا پروپیگنڈہ کہہ کر مسترد کیا ہے۔ طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے جمعرات کو ایک مختصر بیان میں کہا “یہ محض افواہیں ہیں، سچ نہیں “۔ طالبان کے عہدیداروں نے ابھی تک اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ طالبان حکام نے مسلح شورش کو کم کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جنگ زدہ افغانستان میں عوامی حمایت سے امن بحال کیا ہے اور انہوں نے ملک کے تمام 34 صوبوں پر کنٹرول قائم کر لیا ہے۔ صرف مردوں پر مشتمل طالبان حکومت افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار تک رسائی پر سخت پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہیں اور ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ کسی بھی ملک نے طالبان کی قیادت کو ابھی تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
