عقیل یوسفزئی
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے ایک غیر معمولی اور نمایندہ اجلاس میں دہشت گردی اور شرپسندی کے خلاف آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی ہے جس کے نتیجے میں یقینی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں ملک کے شورش زدہ علاقوں میں انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کی جگہ بڑے پیمانے کے آپریشن کیے جائیں گے ۔ فورم کی جاری کردہ تفصیلات اور اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں پانچ متعلقہ وفاقی وزیروں اور گلگت بلتستان سمیت تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ، اور دیگر حکام کے علاوہ آرمی چیف اور تمام سروسز چیفس نے بھی شرکت کی اور درپیش صورتحال کے تناظر میں مجوزہ آپریشن کی منظوری دی گئی جس کا دائرہ کار صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ قانون سازی کرنے اور جاری سیاسی شرپسندی کی بیخ کنی کے اقدامات بھی اس کا حصہ ہوں گے ۔ جس روز یہ اجلاس منعقد ہوا اس دن بھی خیبرپختونخوا کے ضلع دیر میں فورسز اور شدت پسندوں کی شدید جھڑپیں ہوئیں ۔ اس سے ایک روز قبل ضلع کرم میں پاک فوج کے پانچ جوان ایک حملے میں شہید ہوئے جبکہ بعض دیگر علاقوں سے بھی اس نوعیت کی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ آپشن کافی عرصے سے زیر غور تھا ہی کہ بعض علاقوں میں بڑے پیمانے کی فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا جائے ۔ مذکورہ اجلاس میں نہ صرف اس کی منظوری دی گئی بلکہ ایک پورا روڈ میپ پیش کیا گیا ۔ وزیر اعظم نے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اور دلچسپی پر حقائق کی بنیاد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندھی کی کہ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کا روش خطرناک ہے ۔ اس ضمن میں خیبرپختونخوا کی مثال دی جاسکتی ہے جس کی صوبائی حکومت کے پاس شاید کاؤنٹر اسٹریٹجی سرے سے ہے نہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس حکومت کے قیام کے بعد صوبے کے حالات میں مزید ابتری واقع ہوگئی ہے ۔ بعض سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے مجوزہ آپریشن کی مخالفت سامنے آئی ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکورٹی کے درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے ۔ فورم نے اپنے اعلامیہ میں ڈیجیٹل ٹیررازم پر بھی دوٹوک موقف اختیار کیا جس سے تاثر یہ لیا گیا کہ شاید اب 9 مئی کے واقعات میں ملوث ایک سیاسی جماعت کی پروپیگنڈا مہم پر بھی سختی کے ساتھ ہاتھ ڈالا جائے گا ۔