GHAG

عید پر سیکورٹی کے انتظامات اور ایک اور صحافی کا قتل

یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ملک کے تمام سیکورٹی اداروں نے عید الاضحی کے موقع پر درپیش چیلنجز کے تناظر میں امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنے کے لیے بہترین انتظامات کیے اور عید کے تینوں دنوں کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا ۔ اسی طرح ڈبلیو ایس ایس پی سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں موجود دیگر متعلقہ اداروں نے آلائشیں ٹھکانے لگانے کے کام کو بخوبی سر انجام دیا جس کو سیاسی اور عوامی حلقوں نے سراہا ۔ ضلع خیبر میں سیکورٹی فورسز نے اس دوران ایک انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں 5 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا تاہم مجموعی طور پر سیکورٹی کے حوالے سے حالات اطمینان بخش رہے ۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے عید کی مناسبت سے سیز فائر کا اعلان کر رکھا تھا حالانکہ سوشل میڈیا پر بعض ایسی ویڈیوز پوسٹ کی گئیں جن میں خیبرپختونخوا کے بعض قبائلی علاقوں میں مسلح جنگجووں کو نقل و حرکت کرتے دیکھا گیا تاہم اس بارے متعلقہ سیکورٹی حکام کا موقف رہا کہ تمام قبائلی علاقوں میں نہ صرف یہ کہ ریاستی رٹ پوری طرح قایم ہے بلکہ سیکورٹی فورسز مسلسل ایسے عناصر اور گروپوں کا پیچھا کرتی آرہی ہیں ۔
عید کے موقع پر عوام کو پشاور سمیت متعدد دیگر علاقوں میں بجلی کی غیر اعلانیہ اور طویل لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا جس پر عوام کے علاوہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا شدید ردعمل سامنے آیا اور وزیر اعلیٰ نے حسب معمول اپنی روایتی دھمکیاں دے ” ماریں ” تاہم کسی نے ان کی دھمکیوں کو سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ عوام اس تمام صورتحال کو وفاقی حکومت اور واپڈا جیسے اداروں کی ناقص کارکردگی کے علاوہ تحریک انصاف کی موجودہ اور سابق صوبائی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور تصادم پر مبنی رویوں کا نتیجہ بھی قرار دیتے ہیں اور یہ تاثر بہت عام ہے کہ زیادہ تر مسائل صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس کے باعث عوام کو درپیش ہیں ۔
عید کے دوسرے روز ایک افسوس ناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر اور ضلع خیبر میں پشتو نیوز چینل ” خیبر نیوز ” کے سینئر رپورٹر خلیل جبران کو ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر گاڑی سے اتار کر فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا ۔ ان کے ایک اور ساتھی سجاد ایڈوکیٹ کو بھی زخمی کردیا گیا ۔ حملہ آور ایک گاڑی میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اس واقعے پر صحافتی اور سیاسی حلقوں نے انتہائی تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ۔خلیل جبران کی شہادت پر صدر مملکت ، گورنر خیبرپختونخوا اور وزیر اعلیٰ سمیت تمام سیاسی اور صحافتی عہدے داروں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری اور صحافیوں کو تحفظ دینے کی ضرورت پر زور دیا ۔ ڈی پی او خیبر کے مطابق مقتول کو اس سے پہلے بھی بعض دہشت گرد گروپوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور یہ کہ قاتلوں کی تلاش اور گرفتاری کےلئے ٹیم تشکیل دی گئی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اگر خلیل جبران کی زندگی کو ایسے خطرات لاحق تھے تو پولیس نے اتنے سینیئر صحافی کو سیکورٹی کیوں فراہم نہیں کی اور انتظامیہ اس صورتحال سے لاتعلق کیوں رہی ؟ حکام کو اس سوال اور نااہلی کا جواب دینا ہی پڑے گا کیونکہ قبائلی اضلاع کے سیاسی کارکنوں کے علاوہ صحافیوں کو واقعتاً سنگین خطرات لاحق ہیں ۔ خیبرپختونخوا یونین آف جرنلسٹس نے اس واقعے اور جاری سلسلے کے خلاف صوبہ بھر میں مرحلہ وار تحریک اور احتجاج کا اعلان کردیا ہے جبکہ خیبر یونین آف جرنلسٹس اور پی ایف یو جے نے بھی اس حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ خیبرپختونخوا یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور ممتاز صحافی شمس مومند نے جنازہ کے موقع پر ایک احتجاجی سلسلے کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے پورے ملک کی صحافتی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں ۔ اسباب و عوامل جو بھی ہو تمام ریاستی اداروں کو ملک بلخصوص خییر پختونخوا ، بلوچستان اور سندھ میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور تشدد کے واقعات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ یہ سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے اور پائے جانے والے عدم تحفظ نے عوامی اور سیاسی حلقوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts