خیبر پختونخوا کے شورش زدہ علاقے باجوڑ میں گزشتہ روز ہزاروں لوگوں نے سیکیورٹی تھریٹس کے باوجود امن کے حق میں ایک ریلی اور اجتماع کا انعقاد کرتے ہوئے باجوڑ سمیت پورے صوبے میں دہشت گردی کی جاری لہر پر تشویش کا اظہار کیا ۔ مقررین نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ امن کے مخالف قوتوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے سیاسی قائدین ، علماء ، سرکاری اہلکاروں اور عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے اور پراکسیز کا خاتمہ ممکن بنایا جائے ۔ اس موقع پر انتظامیہ نے ریلی اور اجتماع کو بھرپور سیکورٹی فراہم کی تاہم بعض عناصر نے جاری صورتحال کی پیچیدگیوں کا ادراک کیے بغیر ریاستی اداروں کے خلاف نعرہ بازی بھی کی جو کہ وسیع تر عوامی مفادات کے تناظر میں مثبت رویہ نہیں کہلایا جاسکتا کیونکہ جاری جنگ میں کسی بھی طبقے سے سب سے زیادہ جانی نقصان فورسز ہی کو اٹھانا پڑا ہے اور 90 فی صد حملوں کے دوران فورسز خصوصاً پاکستان کی فوج کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
اے این پی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جاری جنگ میں مقامی عوامل سے زیادہ عالمی پراکسیز اور طاقتیں ملوث ہیں تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی اڑ میں ایک مقبول ریاست مخالف بیانیہ کے ذریعے بعض عناصر عوام ، سیاسی کارکنوں اور ریاستی اداروں کے درمیان تلخیاں پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ بلاشبہ عوام کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم جس پارٹی سے مولانا خان زیب اور دیگر شہداء کا تعلق ریا ہے اس پارٹی کی حکومت میں بھی صوبے کو تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا سامنا تھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے تمام سٹیک ہولڈرز پیچیدگیوں کا احساس کرتے ہوئے حالات کی نزاکت کا ادراک کرے اور عوام ، ریاست کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے کی بجائے تعمیری کردار ادا کیا جائے اس ضمن میں ہی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ امن و امان کی بحالی صوبائی حکومت کا ڈومین ہے اور یہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ایک بار پھر اپنے بانی کی رہائی کے لیے محاذ آرائی اور تصام کی پالیسی پر گامزن ہے۔
(جولائی 14، 2025)