اے وسیم خٹک
16 دسمبر 2024
ایک ماں کی آنکھوں میں آج بھی وہ خواب زندہ ہیں جو کبھی اس کے بچے نے دیکھے تھے۔ وہ خواب، جو معصومیت کی دنیا میں گم تھے، آج بھی اس کے دل کے کسی گوشے میں روشن ہیں۔ دس سال بیت گئے، مگر وہ لمحہ جیسے کل کی بات ہو۔ سردیوں کی وہ صبح، جب بچے سکول جانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک عام دن کی طرح لگ رہا تھا۔ لیکن وہ دن عام نہ تھا۔ وہ دن ایک قیامت کا منظر پیش کرنے والا تھا، جو ایک ماں کے دل کو ہمیشہ کے لیے زخمی کر گیا۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول میں جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ دہشت گردوں نے ایک ایسا زخم دیا جس کی گہرائی آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ نہتے بچے، اپنی کلاسز میں بیٹھے، اپنے خوابوں کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ کسی کو ڈاکٹر بننا تھا، کسی کو فوجی، اور کسی کو استاد۔ لیکن ان کے خواب ادھورے رہ گئے۔
سکول کے ہال میں، جہاں بچے تقریبات کے لیے جمع ہوتے تھے، وہاں اس دن خوف اور دہشت کا راج تھا۔ دہشت گردوں نے سکول میں گھس کر نہ صرف بچوں بلکہ ان کے اساتذہ کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ کلاس رومز میں کتابیں بکھری پڑی تھیں، جو علم کی علامت تھیں، لیکن اس دن وہ خون میں رنگی ہوئی تھیں۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی، اور بچوں کی معصومیت اس بے رحم حملے کی بھینٹ چڑھ گئی۔
ایک ماں یاد کرتی ہے: “میرے بیٹے نے اس دن صبح مجھے کہا تھا کہ وہ شام کو میرے ساتھ بازار چلے گا۔ میں نے اس کے لیے نیا بیگ لینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ شام کبھی نہ آئی۔ اس کی جگہ وہ لمحہ آیا جب میں نے اس کا بے جان جسم دیکھا۔” یہ الفاظ کسی بھی ماں کے دل کا درد بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔
دہشت گردوں نے اس دن صرف بچوں کو نہیں، بلکہ پوری قوم کے دل کو زخمی کر دیا۔ 132معصوم بچے، جو کل کے معمار تھے، ایک لمحے میں شہید کر دیے گئے۔ ان کے ساتھ سکول کا عملہ بھی ان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا مجموعی طور پر141 لوگ شہید کردیے گئے یہ لوگ جو علم کے چراغ جلانے میں مصروف تھے، ان کی زندگیاں بھی بجھا دی گئیں۔
ایک استاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو بچانے کے لیے آخری دم تک لڑتی رہیں۔ ان کی قربانی ان تمام اساتذہ کے لیے ایک مثال ہے جو اپنی زندگیوں کو دوسروں کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ان کے گھر والوں نے ایک عظیم انسان کھو دیا، لیکن ان کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
دس سال گزر چکے ہیں، لیکن زخم آج بھی تازہ ہیں۔ ان بچوں کے خاندان آج بھی ان کی یاد میں شمعیں جلاتے ہیں۔ ان کے کمرے ویسے کے ویسے ہیں، جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ ان کے والدین ہر سال 16 دسمبر کو ان کی یاد میں محفلیں کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں، اور امید رکھتے ہیں کہ دنیا کے کسی اور بچے کو یہ دن نہ دیکھنا پڑے۔
یہ حملہ صرف ایک سکول پر نہیں، بلکہ پوری قوم کے ضمیر پر تھا۔ اس دن نے ہمیں دکھایا کہ دہشت گردی کتنی بے رحم ہو سکتی ہے، اور اس کے نتائج کتنے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ہر انسان کو جھنجوڑ دیتا ہے، اور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل دے سکتے ہیں؟
اس واقعے کے بعد حکومت اور فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ان بچوں کے خوابوں کی تلافی ہو سکتی ہے؟ ان کے والدین کا دکھ کبھی ختم ہو سکتا ہے؟
یہ شمعیں جو دس سال بعد بھی جل رہی ہیں، وہ ان بچوں کے خوابوں کی روشنی ہیں، جنہیں دہشت گردی نے اندھیرے میں بدل دیا۔ لیکن یہ روشنی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں ان کے خوابوں کو زندہ رکھنا ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کے لیے ایک پرامن اور محفوظ دنیا بنانی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ صرف حکومت یا فوج کی نہیں، بلکہ ہم سب کی ہے۔ ہمیں ایک ایسی دنیا بنانی ہے جہاں کوئی ماں اپنے بچے کے لیے نہ روئے، کوئی باپ اپنی اولاد کا کفن نہ خریدے، اور کوئی بھائی اپنی بہن کو یاد کر کے آنسو نہ بہائے۔