GHAG

جمہوریت یا دولت کا تماشا

جمہوریت یا دولت کا تماشا

عمر حیات یوسفزئی

سیاست کا نشہ، خوشامدیوں کی واہ واہ، زندہ باد، مردہ باد یہ سب دراصل پیسے کا کھیل ہے۔ جہاں پیسے سے ٹکٹ ملے، وہی اصل پارٹی ہے۔ یہاں کوئی اصول، کوئی نظریہ نہیں؛ بس اقتدار کا نشہ اور جیبیں بھرنا مقصد ہے۔ آج خیبرپختونخوا میں سینیٹ کے الیکشن ہوئے، چھ سیٹیں حکومت کے ہاتھ آئیں اور پانچ اپوزیشن کے۔ کاغذوں پر سب کچھ جمہوری دکھا، پر سچ یہ ہے کہ یہ جمہوریت نہیں، دولت اور طاقت کا تماشہ ہے۔ یہاں نظریہ بکتا ہے، ضمیر نیلام ہوتا ہے اور جیت صرف پیسے والوں کی ہوتی ہے۔ جو لوگ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اور پاکستان کی سیاست میں روشن مستقبل کی امید رکھتے ہیں، ان کے لیے سب سے اہم چیز پیسہ ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ ایک وفادار نظریاتی کارکن ہیں اور آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے، تو اپنا وقت ضائع نہ کریں، اپنے مستقبل کے لیے کسی اور طرف سوچیں۔ یہاں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

یہاں بہت کم مثالیں ملیں گی کہ کسی کو میرٹ پر ٹکٹ دیا گیا ہو۔ حکومت نے بھی وہی پرانا کھیل کھیلا: برسوں پارٹی کا پرچم اٹھانے والے کارکنوں کو کنارے لگا دیا اور ان کی جگہ ٹکٹ ان لوگوں کو دیے جن کے پاس پیسے کی چمک اور تعلقات کا جال ہے۔ نظریہ، قربانی، اصول سب بکاؤ مال ہیں، بس دام اچھے ہونے چاہئیں۔ وفاق میں بیٹھے وزیر نے بھی اپنے بیٹے کو سینیٹر بنوا کر موروثی سیاست کو پھر سے زندہ کر دیا۔ان کو نہ سوات نہ شانگلہ میں کوئی دیرینہ ساتھی ملا کہ ان کو سینیٹر بناتے۔کسی غریب یا نظریاتی کارکن کا حق مارا گیا، مگر فرق کسے پڑتا ہے؟ سیاست اب عوامی خدمت کا وعدہ نہیں بلکہ نسل در نسل کرسی پر قبضے کا منصوبہ بن چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قصور صرف ان سیاستدانوں کا ہے یا ہمارا بھی؟

ہم کیوں نہیں پوچھتے کہ ان لوگوں نے ہمارے بچوں کے لیے، ہمارے علاقے کے لیے کیا کیا؟ تعلیم کہاں ہے؟ ہسپتال کہاں ہیں؟ روزگار کہاں ہے؟ آخر کب تک یہ سب اندھا یقین کرتے رہیں گے؟ اگر ہم نے سوچ نہ بدلی تو کل بھی یہی ہوگا: نظریاتی کارکن پھر بے بسی سے دیکھتے رہ جائیں گے، عوام پھر مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے رہیں گے اور جیت پھر انہی خاندانوں کی ہوگی جن کے لیے سیاست کاروبار ہے، مشن نہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم صرف جلسوں میں ہاتھ ہلانا چھوڑیں اور سوال کریں، ان سے پوچھیں کہ تم نے مزدور، غریب، نوجوان، عام آدمی کے لیے کیا کیا؟ ورنہ یاد رکھنا، کل پھر یہی چہرے ہمیں بیچیں گے، پھر یہی سودے بازی ہوگی، پھر ووٹ کی قیمت لگے گی اور ہم ہمیشہ کی طرح تالیاں بجاتے اور زندہ باد کے نعرے لگاتے رہ جائیں گے، اور نتیجہ وہی پرانا تماشا، وہی خالی وعدے اور وہی مایوسی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts