اے وسیم خٹک
امریکہ کی جانب سے ایران کی تین اہم نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ فردو، نطنز اور اصفہان پر کیے گئے یہ حملے تکنیکی طور پر کامیاب قرار دیے جا رہے ہیں، لیکن ان کے سیاسی اور جغرافیائی اثرات گہرے اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر کی تقریر نے حملے کو ایک “شاندار فوجی کامیابی” قرار دیتے ہوئے ایران کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر امن کا راستہ اختیار نہ کیا گیا تو مزید حملے کیے جا سکتے ہیں۔جس کے بعد پاکستان میں کچھ ذرائع جنرل عاصم منیر کی پالیسی کو فیل قرار دے رہے ہیں کہ امن نوبل انعام کی نامزدگی کا پتا کٹ گیا۔جو پاکستان کی کوشش تھی وہ ناکام ہوگئی ۔مگر یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے اس کا نتیجہ سامنے آئے گا۔ پاکستان نہ ایران ہے نہ عراق، شام یا لیبییا اور نہ ہی افغانستان، یہاں کے اپنے کرودغلوں سے نمٹنا بھی اتنا مشکل نہیں ہے ۔بات ایران پر امریکی حملے کی ہورہی تھی تو اب اس حملے کے بعد سب سے فوری خدشہ ایران کے جوابی ردعمل کا ہے۔ ایران ماضی میں براہِ راست حملوں سے گریز کرتا رہا ہے، لیکن موجودہ حملے کی شدت اور نوعیت ایسی ہے کہ تہران سفارتی سطح سے ہٹ کر فوجی جواب کی راہ اپنا سکتا ہے۔ یہ جواب ممکنہ طور پر خلیج فارس میں موجود امریکی یا اسرائیلی اثاثوں پر ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف، ایران کے پاس اپنے علاقائی اتحادی اور پراکسی گروہ بھی موجود ہیں، جیسے حزب اللہ، حوثی اور عراق میں موجود شیعہ ملیشیائیں، جو ایران کی طرف سے کارروائی کے لیے متحرک کی جا سکتی ہیں۔
اسرائیل کی طرف سے مزید اقدامات بھی بعید از قیاس نہیں۔ اسرائیلی حکام ایران کے جوہری پروگرام کو براہ راست اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں، اور حالیہ امریکی حملے نے اسرائیل کو نہ صرف حوصلہ دیا ہے بلکہ ممکنہ طور پر اپنے دفاع کو مزید جارحانہ انداز میں ترتیب دینے پر بھی مجبور کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ایران کی دیگر فوجی یا جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
امریکہ کی مکمل شمولیت کی صورت میں جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ ابتدائی فضائی اور سائبر حملوں کے بعد محدود زمینی کارروائیوں کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، خاص طور پر اگر ایران نے امریکی مفادات پر براہِ راست حملے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کا ردعمل نیوکلیئر پروگرام کی رفتار تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ تہران ممکنہ طور پر این پی ٹی معاہدے سے نکلنے یا بین الاقوامی معائنہ ختم کرنے کا اعلان کر سکتا ہے، جس سے بین الاقوامی برادری میں ایک اور بحران جنم لے گا۔
حملے کے بعد ایران کی اعلیٰ قیادت اور فوجی کمان کو نشانہ بنانے کی کوششیں بھی ممکن ہیں، جیسا کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی مثال موجود ہے۔ ایسی کسی کارروائی سے “ریجیم چینج” کی کوششوں کا تاثر اور خدشہ مزید بڑھ جائے گا، جس کا ایران شدید ردعمل دے سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ایران کے اندر علیحدگی پسند اور اپوزیشن گروہوں کو سرگرم کرنے کی کوششیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جو کہ اندرونی خلفشار اور کمزوری کا باعث بن سکتی ہیں۔
عالمی سطح پر اس صورتحال پر چین اور روس کی پوزیشن بھی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ دونوں ممالک نے ماضی میں ایران کے ساتھ دفاعی اور معاشی تعاون کا مظاہرہ کیا ہے، اور حالیہ حملوں کے بعد ان کی طرف سے ایران کے دفاع میں کھل کر سفارتی حمایت یا محدود عسکری مدد کا امکان موجود ہے۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا ایک بڑی جغرافیائی کشیدگی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
ادھر، اقوامِ متحدہ یا چین جیسے ممالک کی طرف سے ممکنہ ثالثی یا جنگ بندی کی اپیل کی جا سکتی ہے، لیکن موجودہ حالات میں ان کوششوں کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ امریکہ کی طرف سے محدود حملوں کے بعد “فتح” کا اعلان کر کے پیچھے ہٹنے کا بھی امکان ہے تاکہ مکمل جنگ سے بچا جا سکے، لیکن ایران کا ردعمل اس کو روک سکتا ہے۔
اسرائیل ممکنہ خطرات کے پیش نظر دفاعی پوزیشن سخت کرے گا، ہائی الرٹ پر رہے گا اور ممکنہ طور پر ایران کے اندر خفیہ کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔ خطے میں ایران کے اتحادیوں کو متحرک کر کے ایران مشرقِ وسطیٰ میں مزید محاذ کھول سکتا ہے، جس سے معاملہ صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان نہیں رہے گا بلکہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے لے گا۔
تمام صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو تین بڑے امکانات موجود ہیں: پہلا، ایک محدود، مگر طویل پراکسی جنگ؛ دوسرا، مکمل طور پر جنگ کی طرف جانا، جس میں عالمی طاقتیں شامل ہوں؛ اور تیسرا، تمام فریقین کا جنگ سے پیچھے ہٹ کر مذاکرات کی طرف آنا۔ موجودہ حالات میں پہلا امکان زیادہ قوی نظر آتا ہے، لیکن اگر کوئی غیر متوقع اقدام یا اشتعال انگیزی ہوئی، تو خطہ ایک بڑے جنگی المیے کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔
ایسے نازک وقت میں عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ بصورت دیگر، مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔