GHAG

پی ٹی آئی کی اندرونی رسہ کشی

پی ٹی آئی کی اندرونی رسہ کشی

پی ٹی آئی دیگر معاملات کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ، کابینہ ممبران اور ارکان اسمبلی کے لاہور ” یاترا ” اور مشکوک ، متنازعہ افراد کو سینیٹ کے ٹکٹ جاری کرنے پر ایک بار پھر نہ صرف یہ کہ شدید اندرونی اختلافات سے دوچار ہوگئی ہے بلکہ اس کی صوبائی حکومت کے گرنے کا خطرہ بھی دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے مین سٹریم میڈیا پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے 90 دنوں کی مہلت کو پارٹی کی بجائے وزیر اعلیٰ کی ذاتی رائے کا نام دیا ہے جبکہ پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر خان نے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا ہے کہ ان کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ لاہور میں وہ اور دیگر لیڈرز مرزا خان آفریدی کے ” مہمان” بنیں گے۔

دوسری جانب عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایک بار پھر پارٹی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بھائی کو اس بات پر سخت تشویش لاحق ہے کہ وہ اور بعض دیگر جیلوں کی سختیاں برداشت کررہے ہیں اور پارٹی لیڈر اور کے پی حکومت کے ذمہ داران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ ان کے بقول عمران خان کو پارٹی کے اندرونی اختلافات پر شدید تشویش لاحق ہے اور انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ذمہ داران کے خلاف وہ خود کارروائیاں کریں گے ۔

یہی صورتحال پارٹی کو سینیٹ کے الیکشن کے لیے ٹکٹ جاری کرنے کے معاملے پر بھی درپیش ہے ۔ اگر ایک طرف مرزا خان آفریدی اور بعض دیگر کی جانب سے کروڑوں کے بدلے ٹکٹ حاصل کرنے یا خریدنے کی اطلاعات زیر گردش ہیں تو دوسری جانب بشریٰ بی بی ، علیمہ خان اور گنڈاپور کے درمیان اپنے اپنے گروپوں کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانے کی دوڑ بھی لگی ہوئی ہے ۔ اس ضمن میں پارٹی کے متنازعہ کردار ” مشعال یوسفزئی” کی مثال دی جاسکتی ہے جن کو براہِ راست بشریٰ بی بی کی سفارش اور مداخلت پر مرکزی اور صوبائی قائدین کی مخالفت پر ٹکٹ جاری کرنے کی اطلاعات زیر گردش ہیں ۔ اسی تناظر میں پارٹی کے دوسروں کے علاؤہ پارٹی کے معاملات پر اثر انداز ہونے والے یو ٹیوبرز عمران ریاض نے الزام لگایا ہے کہ مرزا خان آفریدی کو ٹکٹ دینے کے بدلے شبلی فراز اور بعض دیگر نے 12 کروڑ روپے لیے ہیں ۔

اس تمام تر مشکوک صورتحال نے جہاں پارٹی کو پھر سے توڑ پھوڑ کے حالات سے دوچار کیا ہے وہاں اگست کے پہلے ہفتے کے دوران احتجاجی تحریک چلانے کے اعلان کو بھی مشکوک بنادیا ہے کیونکہ پارٹی کے اندر اس معاملے پر کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور مختلف لیڈرز پارٹی کے اندرونی پلیٹ فارمز کی بجائے مین سٹریم میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نظر آرہے ہیں ۔ اس تناظر میں ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کوئی موثر احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ اس کی صوبائی حکومت کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہے ۔

(جولائی 16، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts