بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
پختونوں کے بارے میں روایتی بیانیہ یہی رہا ہے کہ ایک طرف وہ غیرت، جُرأت اور بہادری کی علامت ہیں، اور دوسری طرف پشتون ولی کے امین ـ ایک ایسا غیر مدوّن مگر طاقت وَر سماجی آئین، جس کے بنیادی ستون ملکیت، مہمان نوازی، ننگ، غیرت، جرگہ، حجرہ اور بزرگوں کا احترام رہے ہیں۔ مگر آج جب ہم زمینی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں، تو ایک اہم سوال جنم لیتا ہے: کیا کوئی متفقہ سماجی ضابطۂ اخلاق باقی رہ گیا ہے؟ حسد، بغض، معمولی بات پر قتل و قتال، بزرگوں کی بے ادبی، خواتین کی بے حرمتی، اور نوجوان نسل کی روایت سے ناواقفیت ـ یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ اجتماعی اخلاقی ڈھانچہ تیزی سے منہدم ہو چکا ہے۔ یہ انحطاط اچانک واقع نہیں ہوا؛ بلکہ یہ ایک طویل، منظم اور مرحلہ وار عمل کا نتیجہ ہے۔
پہلا مرحلہ اُس وقت شروع ہوا جب ریاستی مفادات کے نام پر پورے خطے کو مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کی طرف دھکیل دیا گیا۔ کم سن بچوں کو جہاد، بندوق اور نفرت کے اسباق پڑھائے گئے۔ سماج کی توانائیاں تعلیم، صحت اور روزگار جیسے شعبوں سے کاٹ کر ایک ایسے بیانیے کی تشکیل میں صرف کی گئیں جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں انہی بچوں اور نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر نشانہ بنایا گیا۔ اس تضاد نے نہ صرف اجتماعی اعتماد کو توڑا بلکہ شناختی بحران کو مزید گہرا کر دیا: ہم کون ہیں؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ اور ہمیں کہاں جانا ہے؟ تیسرے مرحلے میں “روشن خیالی” اور “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے نعروں تلے ہزاروں جانیں قربان ہوئیں، لیکن نہ سماجی ڈھانچہ بحال ہوا، نہ ادارے مستحکم بنے۔ چوتھا اور سب سے خطرناک مرحلہ تب آیا جب تبدیلی کے کھوکھلے نعروں نے ایک ایسی سیاست کو فروغ دیا جو اخلاقی اقدار سے عاری تھی۔ نوجوانوں کو بتایا گیا کہ رہنماؤں کا کردار غیر متعلق ہے، اور اختلافِ رائے کی تضحیک قابلِ فخر رویّہ ہے ـ چاہے وہ اختلاف والد یا بزرگ سے ہی کیوں نہ ہو۔ یوں سوشل میڈیا پر بدتمیزی، گالم گلوچ اور کردار کشی کو “بیانیہ کی طاقت” سمجھا جانے لگا۔ جعلی قیادت نے حقیقی رہنماؤں کی جگہ لے لی، اور شرفا نے عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے خاموشی میں پناہ لی ـ یہی خاموشی انتہا پسند رویّوں کی آبیاری کا سبب بنی۔
ہم اس بحران کی تمام تر ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ پختونوں نے خود بھی ہر طاقت وَر کو اپنے کندھے پیش کیے۔ کبھی مذہب، کبھی غیرت اور کبھی وفاداری کے نام پر اپنی قوت، جذبات اور قربانیوں کو دوسروں کے ایجنڈوں کے لیے وقف کیا۔ یہ رویہ آج بھی جاری ہے، اور ایک بڑی اکثریت فخر سے اسی راستے پر گامزن ہے۔ اس طرزِ عمل نے پشتون سماج کی فکری آزادی اور خودمختاری کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی قوم خود سوچنے، پرکھنے، اور انکار کرنے کا حوصلہ پیدا نہ کرے، تب تک کوئی بھی بیرونی بیانیہ اس پر مسلط نہیں ہو سکتا۔
پشتون معاشرے کے وہ ستون جو کبھی اجتماعی نظم و ضبط کے محافظ تھےـ جرگے، حجرے، مسجدیں، درسگاہیںـ یا تو کمزور کر دیے گئے، یا ان کی روح چھین لی گئی۔ بزرگ یا تو پسِ منظر میں چلے گئے یا خود مایوس ہو کر خاموش ہو گئے۔ تعلیم زوال کا شکار ہوئی، روزگار کے مواقع معدوم ہوئے، اور نوجوان نسل تہذیبی و فکری تربیت سے محروم رہ گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان بے سمت تنظیموں کے کھوکھلے نعروں کی سیاست کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ـ کوئی انقلاب کے سراب میں ہے، کوئی تبدیلی کی گونج میں۔ حالانکہ انقلاب اور تبدیلی محض نعرے نہیں، بلکہ شعور، تنظیم، ادارہ سازی اور اخلاقی جرأت کا تقاضا کرتے ہیں، اور افسوس کہ یہ سب اوصاف ہماری اجتماعی زندگی سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے رائے سازی کو عوامی تو بنایا، مگر فکری گہرائی اور اخلاقی تربیت کے بغیر یہی پلیٹ فارم انتشار کا میدان بن گیا۔ دلیل کی جگہ گالی، تحقیق کی جگہ سازشی بیانیہ، اور اجتماعی مصلحت کی جگہ انفرادی ہیجان نے لے لی۔ نوجوان کو یہ باور کرا دیا گیا کہ علم، مکالمہ، تحقیق اور برداشت کی کوئی ضرورت نہیں؛ بس نعرہ بازی اور “مضبوط لیڈر” کافی ہے اور یہی سب سے خطرناک فریب ہے۔
سچ یہ ہے کہ آج پشتون نوجوان کو سب سے زیادہ ضرورت تعلیم، صحت، روزگار، اور فکری رہنمائی کی ہے۔ جب تک سماجی ادارے دوبارہ فعال نہیں ہوتے، قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی، اور سیاسی کلچر میں اخلاقیات بحال نہیں ہوتیں، کوئی بھی تبدیلی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ پشتونولی کی روح ـ جس میں اجتماعی عزت، انصاف، مہمان نوازی، مشاورت اور بزرگوں کا احترام شامل تھا ـ اسے جدید ریاستی و دستوری فریم ورک میں دوبارہ تعبیر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ روایت تشدد نہیں بلکہ سماجی انصاف کی بنیاد بنے۔
تعلیم کو اولین ترجیح دینا ہوگی، اور نصاب میں تنقیدی سوچ، سماجی علوم، اخلاقیات، اور ڈیجیٹل لٹریسی شامل کرنا ہوگی۔ مدارس و اسکول کے درمیان تفاوت کو نصاب و مواقع کی برابری سے ختم کیا جائے۔ سیاسی کلچر میں شائستگی، دلیل اور برداشت کو فروغ دیا جائے، اور گالم گلوچ کی سیاست کو سماجی سطح پر رد کیا جائے۔ جرگہ و حجرہ جیسے اداروں کو شفافیت، خواتین کی شمولیت، اور نوجوانوں کی نمائندگی کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ قانون کی عملداری کے لیے ذاتی انتقام کی جگہ ثالثی مراکز اور کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دینا ہوگا۔ معیشت کی بحالی کے لیے ٹیکنیکل و ووکیشنل تربیت، اسٹارٹ اپ انکیوبیٹرز، خواتین و نوجوانوں کے لیے مائیکرو فنانس، اور بارڈر اکنامکس کی قانونی صورت گری ضروری ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے آن لائن نارمز، فیکٹ چیکنگ، سائبر بلنگ کے خلاف قوانین، اور میڈیا لٹریسی پروگرامز کو ترجیح دی جائے۔ نفسیاتی صحت کے لیے کمیونٹی بیسڈ مینٹل ہیلتھ، نوجوانوں کی کاؤنسلنگ، اور اسپورٹس و آرٹس کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ بیرونِ ملک پشتون پروفیشنلز کو اسکالرشپس، ریسرچ نیٹ ورکس، سرمایہ کاری اور مینٹورشپ کے ذریعے سماجی ترقی کا حصہ بنایا جائے، اور خواتین کی شمولیت کو نمائشی نہیں بلکہ پالیسی، قیادت اور ترقی کے ہر مرحلے میں حقیقی بنایا جائے۔
پشتون سماج کا زوال، بے سمتی اور اخلاقی بحران کسی ایک فیصلے یا دور کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں ہماری اپنی رضامندی اور غفلت نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب واپسی کا واحد راستہ علم، ادارہ سازی، سیاسی اخلاقیات، سماجی انصاف اور اجتماعی حکمت سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر نوجوان نسل نے سنجیدگی سے خود احتسابی نہیں کی، سوشل میڈیا کے سراب سے نکل کر حقیقت سے مکالمہ نہیں کیا، اور علم و کردار کی بنیاد پر قیادت کو دوبارہ تصور میں نہیں لایا ، تو تباہی کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ انقلاب اور تبدیلی محض نعرے نہیں ، یہ شعور، تنظیم، اور اخلاقی جرأت کا نام ہیں۔ یہی بصیرت آج پشتون سماج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔