ضیاء الحق سرحدی
پاکستان اللہ کا دیا ہوا وہ تحفہ ہے جس کا ہم جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ 14اگست کویوم آزادی کا دن ہوتا ہے اور تجدید عہد کا دن ہوتا ہے جبکہ ہم محب وطن رہیں گے اور پاکستان کی بقاء اور اس کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایک متحد قوم بن کر دکھائیں گے۔
آج جس پاکستان میں ہم اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ آزادی لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ہمارے بزرگ بتاتے تھے وہ جب جشن آزادی کے روز ہمیں پاکستان کے آزاد ہونے کی کہانی سناتے تھے توکچھ اس طرح گویا ہوتے تھے کہ چودہ اگست صبح پانچ بجے اعلان ہوا ” یہ ریڈیو پاکستان ہے آپ کو پاکستان مبارک ہو”۔ قافلوں کا سلسلہ جاری تھا اور حالات یہ تھے کہ دس بوگیوں کی ٹرین میں دس افراد کا سانس چلتا تھا۔ سات افراد کی فیملی پاکستانی سرحد عبور کرتے کرتے دو افراد تک محدود ہوگئی تھی اور کئی تو اپنی پوری فیملی میں سے اکیلے رہ گئے تھے۔ قیام و طعام کے مسائل تھے اور دفاعی خطرات کھلے آسمان تلے مہاجر خدا کے بھروسے پرپڑے تھے۔
جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی اور مال اسباب سب دیار غیر میں رہ گیا تھا۔اپنوں کے بچھڑنے کا غم اور موت کے جگر فاش نظارے کلیجہ چھلنی کر گئے تھے۔ یہ سب کس لئے تھا؟ اک زمین کے ٹکڑے کیلئے؟ یاپھر اس کا مقصد لا الہ الااللہ کے نام پر ایک مملکت خداداد کا قیام تھا؟۔ آج ہمارے کچھ لیڈر حضرات جب بھارتی سرکار سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگر عوام کے دل ملے ہوئے ہیں۔ ریت ، روایت ، رسم و رواج ایک ہیں تو سرحدی حدود کے قیام کیلئے لاکھوں قربانیاں اور سینکڑوں عصمت داریاں چہ معنی دارد؟ 78برس قبل ہم بکھرے ہوئے اور کم زور تھے،ہم نے نئے سفر کا آغاز کیا اور کافی حد تک آگے گئے لیکن مختلف وجوہ کی وجہ سے ہم بحرانوں کا شکار رہے،ہمارے قدم مسلسل لڑکھڑاتے رہے اور اب تک لڑ کھڑا رہے ہیں۔آیئے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اے پاک پروردگار ،تو ہمیں متحد کر دے، ہمیں حوصلہ دے،ہمیں دنیا بھر میں سر اٹھاکے چلنے کے قابل بنا دے ۔آمین۔
انسانیت کا اتنا ہی درد بھرا ہے تو کشمیر میں 77 سے زائد سال ہوئے صف ماتم کیوں بچھا ہے؟ چلتی گولیاں، آنسو گیس کی شیلنگ، دستی بم بارود، مارکٹائی ، لاپتہ افراد کشمیر میں تو ہندوراج کیوں ہے؟ امن کی آشا، رام رام کا راگ الاپنے والے اور اخوت کے گیت گانے والے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں گوارا کرتے ہیں اور بھارت میں بابری مسجد کیوں شہید ہوتی ہے۔سیالکوٹ کی سرحد گولہ بارود سے کیوں گونجتی رہتی ہے یہ سرحدیں زمینی نہیں، نظریاتی ہیں۔ہمارا دشمن یہ بھول چکا ہے کہ اگر پاکستان کے قیام کیلئے لاکھوں لوگ قربانی دے سکتے ہیں، سینکڑوں بیٹیاں اپنی عزت قربان کرسکتی ہیں تو ان حدود کی بقاء کیلئے آج بھی ہم مرمٹنے کو تیار ہیںکیونکہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کا مطلب لاالہ الا اللہ ہے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے اپنے حکمران بھی پاکستان کا مطلب بھول گئے ۔حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ جلد از جلداسلامی قانون نافذ کرتے اور حکومت کی طاقت سے لوگوں کو صحیح مسلمان بناتے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے ۔ لیکن صد افسوس کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اسلامی ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ عملاً نہ ہوسکا۔تحریک پاکستان اور آزادی میں خیبر پختونخوا کے عوام نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام اپنی بہادری اور مذہبی ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں۔
قائداعظم کے مطالبے پر 1927ء میں دستوری اصلاحات کا آغاز ہوا۔ 1940ء میں سردار اورنگزیب نے قرار داد پاکستان کی تائید و توثیق کی۔ سردار اورنگزیب خان، جسٹس سجاد احمد خان اور خان بہادر اللہ خان کی کوششوں سے 1939ء میں ایبٹ آباد میں مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس خیبر پختونخوا کے مسلمانوں میں تحریک آزادی کی روح پھونکنے کا ذریعہ بنی۔ کئی اضلاع میں مسلم لیگ کے دفاتر کھولے گئے۔ مسلم لیگ نے 1947ء میں صوبے میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا گیا۔ تقریباً آٹھ ہزار کارکنان کو گھرو ں میں نظر بند کر دیا گیا۔ لیکن مسلم لیگ کی تحریک بڑی تیزی سے پھلتی پھولتی چلی گئی۔مذہبی رہنمائوں نے اس تحریک میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔ اسلامیہ کالج پشاور اور ایڈورڈز کالج کے طلبہ تصور پاکستان کو نمایاں کرنے میں سرفہرست تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں کانگریس کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور اس صوبے میں اس کا زور ٹوٹ گیا اور یہاں مسلم لیگ ایک مقبول سیاسی جماعت بن گئی۔ اس طرح 14اگست 1947ء کو شمالی مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ (موجودہ خیبرپختونخواہ) پاکستان کا قیام چودہویں صدی ہجری کا سب سے اہم واقعہ ہے جو علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی تعبیر، قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت کا ثمر اور لاکھوں مسلمانوں کی بارگاہِ شہادت ہے۔پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر رکھی گئی تھی ۔
انگریز اور ہندو دونوں کی یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست معرض وجود میں نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ساتھ دیا اور ان کی قربانی رنگ لائی اور پاکستان بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔14اگست ہماری تاریخ اور آزادی کا وہ دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے حقوق اور طویل جدوجہد کا ثمر ایک الگ وطن پاکستان کی شکل میں حاصل کیا۔اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو آج ہماری کوئی پہچان نہ ہوتی ہم آج جو کچھ بھی ہیں صرف اور صرف پاکستان کی بدولت ہیں۔ اے اہل وطن اُٹھیے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کے لیے دن رات محنت کریں ۔تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی روحوں کو ابدی راحت اور سکون پہنچانے کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے دن رات کام کریں۔یہی یوم آزادی کا ہم سب کے لیے پیغام ہے۔
پاکستان کے پرچم کو گھروں اور گاڑیوں پر لہرانے اور جھنڈیوں کی صورت میں آویزاں کرنے کا ایک تاریخی پس منظرہے۔اس عمل سے تحریک پاکستان کے مناظر بزرگوں کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔نوجوان نسل کو تحریک پاکستان سے روشناس کرایا جاتا ہے۔یہ ہم سب کے لئے تجدید عہد کا دن ہوتا ہے۔قیام پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کے تذکرے ہوتے ہیں۔برصغیر کے نقشے میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ملک کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔پاکستان کے قیام کو روکنے کے سلسلے میں انگریزوں اور ہندؤں کے گٹھ جوڑ اور سازشوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے ۔سرسبز وشاداب پاکستان ہم سب کا ایک خواب ہے۔اس ضمن میں ضرور بالضرور کام کیا جائے۔مگر یاد رکھیں کہ14اگست کے جذبوں کو سردیا کم کر کے نہیں ۔آیئے ہم سب مل کے14اگست بھی منائیں جس پر ہم دنیا بھر میں فخر کرسکیں۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی