GHAG

انقلاب، انقلاب کا شور: ہم کہاں کھڑے ہیں؟

انقلاب، انقلاب کا شور: ہم کہاں کھڑے ہیں؟

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

آج کل پاکستان میں ہر طرف انقلاب کے نعرے گونجتے ہیں۔ سیاسی جلسوں سے لے کر سوشل میڈیا تک، دن رات یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انقلاب بس آنے ہی والا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ دروازے پر کھڑا ہے اور صرف اندر بلانے کی دیر ہے۔ ہر ٹویٹ، ہر ویڈیو اور ہر تقریر میں یہی تصور پیش کیا جاتا ہے کہ تھوڑا سا انتظار کیجیے، نظام الٹنے والا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقتاً کتنے لوگ جانتے ہیں کہ انقلاب ہوتا کیا ہے؟ کون لاتا ہے؟ کیسے آتا ہے؟ اور کن لیڈروں اور کارکنوں کے ذریعے برپا ہوتا ہے؟ جب تک ان سوالات کے شعوری جواب نہ ہوں، انقلاب کا نعرہ محض ایک جذباتی فریب رہتا ہے۔

انقلاب ایک ہمہ گیر اور تکلیف دہ عمل ہے۔ یہ صرف حکومت کی تبدیلی یا اقتدار کی منتقلی نہیں بلکہ پورے نظام کو اکھاڑ کر نیا نظام اگانے کا عمل ہے۔ ایسا نظام جو صرف چہروں کی نہیں بلکہ اصولوں، اقدار اور طاقت کے مراکز کی بھی تبدیلی لائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب کبھی محض جذبات سے نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ ایک واضح نظریے، نظریاتی قیادت، منظم جماعت اور قربانی کے جذبے سے وجود میں آیا ہے۔ انقلاب حادثاتی نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے ٹویٹر یا فیس بک پر برپا کیا جا سکتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں آنے والے بڑے انقلابات اسی حقیقت کی مثال ہیں۔ فرانسیسی انقلاب (1789) کو لیجیے۔ یہ صرف بادشاہ لوئی شانزدہم کو انجام تک پہنچانے کا عمل نہیں تھا بلکہ صدیوں پر محیط جاگیردارانہ استحصالی نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ عوام غربت، بھوک اور ناانصافی سے تنگ آ چکے تھے، لیکن ان کی بے چینی کو ایک منظم نظریے نے سمت دی: “آزادی، مساوات، بھائی چارہ ، اس نظریے نے ہزاروں افراد کو متحد کیا، قربانیاں دی گئیں، اور بالآخر فرانس کا پورا سماجی و سیاسی ڈھانچہ بدل گیا۔ انقلاب نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ ایک ایسے نظام کو جنم دیا جو آج تک یورپ کی سیاست کو متاثر کرتا ہے۔

اسی طرح روسی انقلاب (1917) سوشلسٹ نظریے پر استوار تھا۔ لینن اور ان کے ساتھیوں نے برسوں عوام کو شعور دیا، بولشیوک پارٹی کو منظم کیا، قربانیاں دیں اور زار شاہی کو گرا کر نیا نظام قائم کیا۔ یہ صرف حکومت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ زمینوں کی ملکیت، تعلیم، صحت اور انصاف تک سب کچھ بدل گیا۔ روسی انقلاب نے دنیا بھر میں مزدور تحریکوں کو تقویت دی اور سرمایہ داری کے مقابل ایک متبادل نظام کو سامنے لایا۔

ایرانی انقلاب (1979) بھی ایک واضح نظریہ اور قیادت کا نتیجہ تھا۔ آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران کی مطلق العنان حکومت کے خلاف سیاسی، معاشی اور ثقافتی بیداری کی تحریک چلائی۔ عوام کو شعور دیا گیا، کارکنوں نے جیلیں کاٹیں، جلاوطنی جھیلی، جانیں قربان کیں، اور آخرکار اسلام کے اصولوں پر قائم ایک نیا ریاستی ڈھانچہ وجود میں آیا۔ ایرانی انقلاب اس بات کی مثال ہے کہ مذہب کو بھی ایک نظریاتی فریم ورک کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ قیادت منظم ہو اور عوام تیار ہوں۔

پاکستان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سب سے نمایاں مثال ذوالفقار علی بھٹو کا دور ہے۔ بھٹو نے “روٹی، کپڑا اور مکان” کا نعرہ دیا جو عام آدمی کے دکھ درد سے جڑا ہوا تھا۔ اس نعرے نے عوامی شعور کو جھنجھوڑا اور سیاست میں ایک نئی توانائی پیدا کی۔ لاکھوں لوگ اس پیغام سے متاثر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ نعرہ ایک مکمل انقلابی نظریہ تھا یا محض سیاسی حکمتِ عملی؟ بھٹو نے عوام کو کچھ دیر کے لیے امید ضرور دلائی، مگر کیا وہ ایک ایسا منظم اور دیرپا ڈھانچہ قائم کر پائے جو پورے نظام کو بدل دیتا؟ یہی وہ سوال ہے جو آج بھی پاکستانی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔

اب سوال یہ ہے: کیا آج پاکستان میں کوئی ایسی جماعت موجود ہے جو واقعی ایک واضح نظریہ رکھتی ہو؟ جو صرف اقتدار حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھتی ہو بلکہ نظام کو بدلنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتی ہو؟ کیا ہمارے سیاسی قائدین لینن، خمینی یا روبسپئیر جیسے انقلابیوں کی طرح نظریاتی، باکردار اور قربانی دینے والے ہیں؟ کیا ان میں وہ فکری گہرائی اور اخلاقی وقار ہے جو عوام کو محض جوش نہیں بلکہ شعور دے سکے؟

یہاں ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ دنیا کے بڑے انقلابات میں لیڈروں کے کردار کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی قربانی بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کارکن وہ ایندھن ہوتے ہیں جو انقلاب کے انجن کو چلاتے ہیں۔ مگر کیا ہمارے سیاسی کارکن صرف لیڈروں کے نعروں پر چلنے والا ہجوم ہیں، یا ان میں مطالعہ، نظم و ضبط اور عوامی خدمت کا جذبہ موجود ہے؟ کیا یہ صرف سوشل میڈیا کے “انقلابی” ہیں یا حقیقی میدان کے سپاہی؟ کیا یہ نظام کو سمجھ کر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یا محض ایک شخصیت کے قصیدے پڑھنے اور مخالفین پر دشنام طرازی کرنے میں مصروف ہیں؟

پاکستان میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی کارکن شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔ وہ لیڈروں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ لیڈر کا نظریہ کیا ہے یا اس کی تنظیمی صلاحیت کتنی ہے۔ حقیقی انقلاب کبھی فرد پرستی سے نہیں آتا، وہ ہمیشہ اجتماعی شعور اور اصولی سیاست سے جنم لیتا ہے۔ اگر کارکن صرف “ہاں جی” کرنے والے رہیں اور عوامی خدمت کی بجائے صرف نعرہ بازی پر توجہ دیں تو کسی بڑے انقلاب کا خواب محض سراب ہی رہے گا۔

ہر پاکستانی کو یہ سوچنا ہوگا: کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت یا لیڈر موجود ہے جو نظریہ، قربانی اور کردار کے اصولوں پر پورا اترتا ہے؟ کیا ہمارے کارکن ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ملک و قوم کے لیے قربانی دینے کو تیار ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو پھر تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم انقلاب کے اہل نہیں، صرف اس کے نعروں کے عادی ہیں۔

سوشل میڈیا انقلاب کے لیے ایک ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن انقلاب خود نہیں۔ یہ ہتھیار ہے، اصل جنگ میدان میں لڑی جاتی ہے۔ انقلاب صرف انہی قوموں کے لیے ہے جو سچ سننے اور خود کو بدلنے کی ہمت رکھتی ہیں۔ جب تک نظریہ، تنظیم، قیادت اور قربانی موجود نہ ہو، انقلاب محض ایک نعرہ ہے۔ جب تک ہم اسے فیشن یا احتجاج سمجھتے رہیں گے، تبدیلی خواب ہی رہے گی۔ انقلاب سنجیدہ، مشکل اور مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ یہ قربانی مانگتا ہے، استقلال مانگتا ہے اور ایک ایسی قیادت مانگتا ہے جو اصولوں پر ڈٹی رہے۔ اس کے بغیر صرف شور ہے، تبدیلی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts