GHAG

پاکستانی عدلیہ: تبدیلی کا سراب، تسلسل کا نظام

پاکستانی عدلیہ: تبدیلی کا سراب، تسلسل کا نظام

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کر لیں، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

اس فیصلے کے بعد حسبِ روایت ملک ایک بار پھر دو بیانیوں میں بٹ گیا ہے۔ جن کے حق میں فیصلہ آیا، وہ اسے آئین، قانون اور عوام کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اس فیصلے سے آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوئی ہے اور قانون کی درست تشریح سامنے آئی ہے۔ دوسری جانب، جنہیں اس فیصلے سے سیاسی نقصان پہنچا، انہوں نے اسے مایوس کن اور ناانصافی پر مبنی قرار دیا ہے۔ بعض حلقوں نے تو اسے “سپریم کورٹ کے چہرے پر ایک اور داغ” بھی کہا ہے۔

یہ منظرنامہ کوئی نیا نہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے قوم کو تقسیم کیا۔ ہر بار ایک فریق کو “لاڈلا” جبکہ دوسرے کو “سوتیلا” سمجھا گیا۔ پاکستان میں عدلیہ کا کردار کبھی مکمل طور پر غیرجانبدار نہیں رہا۔ جن فیصلوں کو تاریخ ساز کہا جاتا ہے، ان میں اکثر آئینی تشریح سے زیادہ طاقت کے مراکز یا ذاتی رجحانات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ 1954 میں مولوی تمیزالدین کیس پہلا بڑا امتحان تھا، جس میں چیف جسٹس منیر نے اسمبلی کی برخاستگی کو جائز قرار دے کر “نظریۂ ضرورت” کو جنم دیا۔ یہی نظریہ بعد ازاں ہر آمر کے لیے آئینی جواز بن گیا۔ لیکن مسئلہ صرف دباؤ کا نہیں—اکثر فیصلے ججوں کی ذاتی ترجیحات، سیاسی جھکاؤ یا کسی شخصیت سے عقیدت یا نفرت کے زیرِ اثر بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

اس کی سب سے نمایاں مثال 1979 میں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف دیا گیا فیصلہ ہے۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین کی بھٹو سے ذاتی رنجش ایک معلوم حقیقت تھی۔ بھٹو دور میں انہیں چیف جسٹس بنانے سے انکار کیا گیا تھا، اور بعد ازاں جب وہی جج بھٹو کے مقدمے کی سماعت پر بیٹھا، تو اس کا فیصلہ تعصب سے خالی نہ تھا۔ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے اس ظالمانہ فیصلے میں جنرل ضیاء الحق کا ججوں پر دباؤ بھی شامل تھا، جسے بعد میں بعض ججوں نے تسلیم کیا۔ یہی وہ فیصلہ ہے جسے آج بھی “عدالتی قتل” کہا جاتا ہے۔ تقریباً 45 سال بعد، اس فیصلے کے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے گزشتہ سال (13 سال بعد) رائے دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں منصفانہ ٹرائل (فیئر ٹرائل) کا حق نہیں دیا گیا تھا اور یہ فیصلہ غلط تھا۔

پرویز مشرف کا 1999 میں اقتدار پر قبضہ اور 2000 میں عدالتِ عظمیٰ کا اسے آئینی جواز دینا بھی اسی تسلسل کا حصہ تھا۔ وہی عدالت نہ صرف ماورائے آئین اقدام کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ آئین میں ترمیم کا اختیار بھی سونپ دیتی ہے—جو کسی بھی جمہوری نظام میں ناقابلِ تصور ہے۔ بعد ازاں، 2007 میں جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا، تو وکلاء تحریک اٹھی اور عدلیہ کو ایک بار پھر عوامی حمایت ملی۔ مگر جلد ہی ان کے طرزِ عمل، سو موٹو کے بے جا استعمال، اور میڈیا سے قربت نے اس تاثر کو زائل کر دیا۔

اسی طرح حالیہ برسوں میں بعض ججوں کی سیاسی وابستگی، ذاتی پسند و ناپسند، اور بیانیاتی ہمدردی بھی عدالتی عمل کو متاثر کرتی رہی ہے۔ بعض جج صاحبان کی جانب سے عمران خان کے حق میں نرم گوشہ اور ان کے بیانیے سے غیر معمولی قربت نہ صرف ان کے فیصلوں بلکہ عدالت میں دیے گئے ریمارکس میں بھی جھلکتی رہی۔ بعض ججوں کے اہلِ خانہ کی سیاسی وابستگیاں بھی زیرِ بحث آئیں، جس سے عوامی اعتماد کو دھچکا لگا۔ اسی سیاق میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ بھی نمایاں مثال ہے، جب ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے ان کی ساکھ اور آزادی کو چیلنج کیا گیا۔ اس ریفرنس کو عدالتی مداخلت اور ایگزیکٹو کی جانب سے عدلیہ پر دباؤ کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔ بعد میں جب عدالت نے اس ریفرنس کو کالعدم قرار دیا، تو ایک جانب عدلیہ کی خودمختاری کا دفاع ہوا، مگر ساتھ ہی یہ انکشاف بھی ہوا کہ کس طرح طاقت کے مراکز ججوں کو زیرِ اثر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی بعض سخت گیر رائے اور مختلف فیصلوں میں اختلافی نوٹ، عدالتی نظام میں داخلی تقسیم اور اصولی اختلافات کی علامت بنے رہے۔

2017 میں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اُس وقت عمران خان کی جماعت اسے انصاف کی جیت اور عدلیہ کی آزادی قرار دے رہی تھی، جبکہ مسلم لیگ ن نے اسے “عدالتی مارشل لا” کہا۔ صرف ایک اقامہ کی بنیاد پر ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دینا آج بھی قانونی حلقوں میں موضوعِ بحث ہے۔ لیکن جب چند ہی سال بعد عدالتی فیصلے عمران خان کے خلاف آنے لگے، تو وہی جماعت جو کل عدلیہ کو “امید کی کرن” کہہ رہی تھی، اسے “جانبدار، بکا ہوا اور دباؤ کا شکار” قرار دینے لگی۔

2023 اور 2024 میں سپریم کورٹ کے مختلف فیصلے، مثلاً الیکشن کی تاریخ، اسمبلی تحلیل، اور مخصوص نشستوں کی تشریح، سب اسی دیرینہ تسلسل کا حصہ ہیں۔ ایک فریق ان فیصلوں پر شکرانے کے نوافل ادا کرتا ہے، جبکہ دوسرا سڑکوں پر احتجاج کرتا ہے۔ کوئی مٹھائیاں بانٹتا ہے، تو کوئی عدلیہ کو “ریجیم چینج کا آلہ” قرار دیتا ہے۔ یہاں اصول نہیں، چہرے اہم ہیں؛ انصاف نہیں، مفاد مقدم ہے۔

یہ کھیل تب تک جاری رہے گا جب تک ہم اس کی جڑ تک نہیں پہنچتے۔ مسئلہ صرف عدالتی فیصلوں کا نہیں، بلکہ اس ماحول کا ہے جس میں وہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جب تک ججوں کی تعیناتیاں چیمبروں اور سیاسی وابستگیوں کے بجائے مکمل شفاف، پیشہ ورانہ صلاحیت اور میرٹ پر نہیں ہوں گی، جب تک جج میڈیا میں سرخیاں بنانے کا شوق ترک نہیں کرتے، جب تک وہ ذاتی جذبات، رنجشوں، اور سیاسی ہمدردیوں سے بالاتر ہو کر فیصلے نہیں کرتے، اور جب تک وہ صرف آئین، قانون اور شفافیت کو معیار نہیں بناتے، تب تک عدلیہ کا وقار اور ججوں کا اپنا احترام بحال نہیں ہو سکتا۔

عدلیہ کے ادارہ جاتی وقار کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ججوں کے اثاثہ جات کا سالانہ آڈٹ ہو جو مناسب حد تک عوامی سطح پر قابلِ رسائی ہو۔ ریٹائرڈ ججوں کو کسی سرکاری یا سیاسی عہدے پر تعینات نہ کیا جائے ۔ عدالتی فیصلوں کو عام فہم انداز میں عوام تک پہنچانے کے لیے ترجمے، خلاصے اور بریفنگز کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ عام شہری قانون کو سمجھ سکے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال، آزاد اور شفاف بنایا جائے تاکہ احتساب بھی ہو اور عدلیہ کا اعتماد بھی بحال ہو۔

جمہوریت محض ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ادارہ جاتی توازن، سیاسی بصیرت اور آئینی دیانت کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم واقعی ایک مہذب، مستحکم اور انصاف پسند ریاست بنانا چاہتے ہیں، تو ہر فریق کو اپنے بیانیے سے باہر نکل کر خود کو آئین و قانون کے تابع کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، جج صاحبان کبھی اپنی یا اپنے خاندان کی سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کسی کو “گڈ ٹو سی” کہیں گے، اور کسی کو بغض و عناد میں “سیسلین مافیا” قرار دیں گے۔ وقت گزرتا رہے گا، کرسیاں بدلتی رہیں گی، اور ان کے ساتھ فیصلے بھی پلٹتے رہیں گے۔ یوں ہر دور میں صرف چہرے بدلیں گے، فیصلے بدلیں گے، اور قوم یونہی تماشا دیکھتی رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

اسرائیل ایران جنگ بندی

حیدر جاوید سید لیجئے اسرائیل ایران جنگ بند ہوگئی، نامعلوم ماہرین اور ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ایران کا قطر میں امریکی بیس پر حملہ

Read More »